بوسنیا کے سربرینکا علاقے میں دوسری جنگ عظیم کے بعد ہونے والی سب سے بڑی نسل کشی سے متعلق متاثرین نے ڈچ سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد 'سربرینکا' سب سے بڑی نسل کشی متاثرین کا کہنا ہے کہ نچلی عدالت کے اُس فیصلے کو برقرار رکھا جائے جس میں ڈچ فو ج کو نسل کشی کے لیے 10 فیصد ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔
در اصل ڈچ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں ڈچ فوج کو مکمل ذمہ دار قرار دیا تھا۔ اس فیصلے میں سربیائی فوج کے ذریعہ سنہ 1995 میں 350 مسلمانوں کے ہلاکت سے متعلق ذکر کیا گیا ہے۔
اپنے شوہر اور دو بچوں کو اس حادثے میں کھونے والی زکریا ایفندک کا کہنا ہے کہ ڈچ فوج کے سامنے انہوں نے اس یقین کے ساتھ ہتھیار ڈال دیا تھا کہ وہ انہیں محفوظ رکھیں گے۔
انہوں نے دو راتیں ان کے چھاونی میں گذاری۔ تبھی سرب آئے اور ڈچ فوجیوں سے ہتھیار چھین لیا۔ سرب نے ان کی وردی پہنی اور انہیں نیچھے کے حصے میں بندی بنا لیا۔ ان دو راتوں میں سرب، رات میں لوگوں کو لے کر یہاں آتے تھے اور قتل کر دیتے تھے۔
اس کے ساتھ ہی متاثرین نے ان کے اہل خانہ کی ہلاکت کے لیے اقوام متحدہ کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ اگر اقوام متحدہ چاہتا تو اس حادثے کو روکا جا سکتا تھا، کیوں کہ یہاں کوئی جنگ نہیں ہو رہی تھی۔
غور طلب ہے کہ 11 جولائی سنہ 1995 کو سربیائی فوج نے تقریبا 7 ہزار بوسنیائی مسلمانوں کو ہلاک کر دیا تھا۔