اسلام آباد میں ملکی و غیر ملکی میڈیا نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس قسم کا غیر معمولی اجلاس 41 سال بعد ہورہا ہے، افغانستان اور پاکستان کا امن باہم منسلک ہے، جس سے ہماری زمینی مواصلات اور تجارتی روابط کو فروغ ملے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے حالات Situation in Afghanistan خراب ہیں اور ہم سب اس انسانی المیے کے مشترکہ ذمہ دار ہوں گے، افغانستان میں 10 لاکھ بچے غذا کی کمی کا شکار ہیں، برائے مہربانی انہیں چھوڑیں نہیں، کسی مخصوص گروہ کے بارے میں نہیں بلکہ افغانستان کے بارے میں سوچیں۔
قریشی نے کہا کہ اگر افغانستان میں انسانی بحران Humanitarian crisis in Afghanistan کو نہیں روکا گیا تو ملک معاشی طور پر تباہ ہوجائے گا اور اگر توجہ نہ دی گئی تو بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے گا، کیوں کہ افغانستان میں القاعدہ اور داعش کی باقیات ہیں جو دوبارہ متحرک ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو ہمیں نئے انخلا کی تیاری کرنی ہوگی جس سے پاکستان، سمیت افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور یورپی یونین کی ریاستیں بری طرح متاثر ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر افغانستان سے لوگوں کا نیا انخلا ہوا تو یہ معاشی ہجرت ہوگی اور وہ خطے سے باہر جائیں گے، آپ انہیں کس طرح قابو اور چیک کریں گے، مہربانی کر کے اپنا کردار ادا کریں۔
یہ بھی پڑھیں: Pakistan On OIC Meeting: ہم دنیا کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ افغانستان میں حالات بگڑ رہے ہیں
پاکستانی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان، افغانوں کی مدد کرنے میں بحیثیت ایک ذمہ دار ملک اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ افغانستان کی مدد کے سلسلے میں اٹھائے گئے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے خطے کے 6 ممالک پر مشتمل ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا ہے جس کا پہلا ورچوئل اجلاس اسلام آباد میں، دوسرا ایران میں ہوا جبکہ تیسرا بیجنگ میں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے بجٹ کی 75 فیصد ضروریات بینکنگ چینلز کے ذریعے غیر ملکی امداد سے پوری ہوتی تھی لیکن اکاؤنٹس منجمد کردیے گئے ہیں، افغانستان کی خواتین اور بچے کیوں مشکل اٹھائیں۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اشرف غنی حکومت کی ناکامیوں پر پاکستان کو قربانی کا بکرا نہیں بنایا جاسکتا، عالمی برداری اپنے نقطہ نظر پر نظرِ ثانی کرے اور اس مشکل حالات میں افغانستان کے لیے مدد کا ہاتھ بڑھائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹرائیکا پلس میں شامل جرمنی، جاپان، اٹلی، آسٹریلیا کے مندوب خصوصی برائے افغانستان بھی خصوصی دعوت پر او آئی سی اجلاس میں شرکت کریں گے۔