جمال خاشقجی کا قتل گذشتہ برس استنبول میں سعودی عرب کے قونصلیٹ میں ہوا تھا۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری شدہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کونسل کے رکن ایگنیس کلا مارڈ نے کہا ہے کہ 'خاشقجی کی موت غیر معمولی ہے جس کے لیے سعودی عرب کی حکومت ذمہ دار ہے'۔
اس کے علاوہ یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ خاشقجی کے قتل میں ملوث لوگوں کی شناخت کرنے اور اس معاملے میں ان کے کردار کو طے کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ 'خاشقجی کے قتل کے ذمہ دار سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان اور دیگر اعلیٰ اہلکار ہیں'۔
مملکت سعودی عربیہ کی جانب سے جمال خاشقجی کے قتل کے سلسلے میں 11 نامعلوم سرکاری اہل کاروں پر خفیہ عدالت میں مقدمہ چلا رہی ہے۔
اس مقدمے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کیلامارڈ نے کہا جس قسم کی مقدمہ کی کارروائی ہو رہی ہے، وہ بین الاقومی تقاضوں پر نہیں اترتی ہے۔
حتی کہ کیلامارڈ نے مقدمے کی کارروائی کو معطل کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
جمال خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے میں داخل ہوئے، باہر ان کی مینگتر ان کا انتظار کرتی رہیں مگر وہ باہر نہیں آئے۔
آئیے جمال خاشقجی کے قتل پر پیش ایک تاریخ وار بیانیے:
4 اکتوبر 2018
سعودی عرب کی جانب سے کہا گیا کہ جمال خاشقجی استنبول میں سعودی قونصلیٹ سے نکلنے کے بعد کہاں گئے، اس کی کوئی خبر نہیں ہے، انہیں تلاش کیا جا رہا ہے۔
6 اکتوبر 2018
جمال خاشقجی واشنگٹن پوسٹ کے لیے کام کر رہے تھے، واشنگٹن پوسٹ نے کہ انھیں سفارت خانے کے اندر سعودی عرب سے آنے والی 15 افراد کے ایک گروہ نے ہلاک کر دیا۔
10 اکتوبر 2018
ترک میڈیا نے سی سی ٹی وی فوٹیج نشر کیا جس کے مطابق مبینہ گروہ ترکی کے دارالحکومت استنبول میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔