اردو

urdu

ETV Bharat / international

افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا کب تک؟

محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ افغانستان کبھی بھی دہشت گردانہ حملوں کا ایسا پلیٹ فارم نہیں بن سکتا جس سے امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے سامنے خطرہ ہو۔

Biden administration
Biden administration

By

Published : Apr 7, 2021, 11:27 AM IST

بائیڈن انتظامیہ نے منگل کے روز کہا کہ افغانستان سے امریکی فوجی کا انخلا منظم اور اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کی مشاورت سے ہوگا۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ افغانستان کبھی بھی دہشت گردانہ حملوں کا ایسا پلیٹ فارم نہیں بن سکتا جس سے امریکہ یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہو۔

انہوں نے روزانہ بریفینگ کے دوران صحافیوں سے کہا کہ "صدر جو بائیڈن واضح کر چکے ہیں کہ وہ افغانستان سے ہمارے فوجی کو واپس بلانے کے خواہشمند ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے کہا ہے، بطور سکریٹری (وزیر خارجہ ، ٹونی) بلنکن نے کہا ہے، جیسا کہ (دفاع) کے سکریٹری (لائیڈ) آسٹن نے کہا ہے، اور جیسا کہ دوسروں نے کہا ہے، ہم اپنے فوجیوں کو وہاں سے بلانے، تنازعے کو ختم کرنے کے لئے پرعزم ہیں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ افغانستان کبھی بھی دہشتگردوں کے لئے پلیٹ فارم نہ بنے جہاں سے وہ امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے لئے خطرہ بن سکیں۔''

انہوں نے کہا کہ برسلز میں حال ہی میں نیٹو کے وزرائے خارجہ نے اس معاملے میں ایک معاہدہ کیا ہے اور افغانستان کے معاملے میں بھی اتفاق کیا ہے۔

پرائس نے کہا کہ "بین الاقوامی برادری بھی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ افغانستان میں ہم نے جس کا طویل عرصہ سے سامنا کیا ہے اس کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا تنازعہ ہے جس کا خاتمہ ایک سیاسی حل اور ایک جامع جنگ بندی کے ذریعے ہونا ہے، یہ عمل افغانستان کے زیر قیادت ہونا ہے''

انہوں نے تسلیم کیا کہ اس معاملے میں کوئی اپڈیٹ نہیں ہے کہ صدر جوبائیڈن یکم مئی تک امریکی فوجی کے انخلا کے متعلق فکرمند ہیں، جیسا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔

واضح رہے کہ بائیڈن نے یکم مئی تک امریکی فوج کے انخلا کو مسترد کردیا ہے۔

پرائس نے کہا کہ "انہوں نے واضح طور پر حالیہ دنوں میں یکم مئی کی آخری تاریخ کے تناظر میں بیان دیا ہے۔ میں جو بھی کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ فوجیوں کے کسی بھی انخلا کا منصوبہ ترتیب سے ہوگا اور یقیناً اس کو ہمارے شراکت داروں اور اتحادیوں کے مشاورت سے عمل میں لایا جائے گا۔''

انہوں نے کہا کہ اس کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ سفارت کاری کے ذریعے ایک جامع جنگ بندی اور سیاسی حل تک پہنچنا ہے اور خصوصی نمائدہ زالمے خلیل زاد اور ان کی ٹیم اس کام میں مصروف ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت وہ دوحہ میں ہیں، انہوں نے اسلامی جمہوریہ اور طالبان دونوں سے بات چیت کرنے والی ٹیموں سے ملاقات کی ہے تاکہ وہ مذاکرات میں مزید پیشرفت اور اس تشدد میں کمی کے لئے زور دے سکیں۔

انہوں نے دیگر بین الاقوامی شراکت داروں سے یہ بھی جاننے کے لئے ملاقات کی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ بین الاقوامی برادری اس مذاکراتی عمل میں دونوں فریقین کی بہترین مدد کر سکے۔

انہوں نے کہا کہ وہ ایسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں جو ان امن مذاکرات کے لئے سازگار اور تعمیری ہوں۔

انہوں نے کہا کہ "ہم نے حالیہ دنوں میں یہ بھی کہا ہے کہ تشدد کے معاملے ناقابل قبول حد تک زیادہ ہوئے ہیں اور ہم نے مستقل طور پر طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تشدد میں کمی لائیں۔ ہم ایسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں جو امن مذاکرات کے لئے سازگار ہوں''۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details