وسطی ایشیائی سرحد سے ملحقہ برف پوش پہاڑوں اور بنجر صحراؤں کے درمیان واقع چین کے بڑے خطے شنجیانگ میں حکومت کی پالیسی کے باعث مسلمانوں کے مستقبل پر شکوک کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
بیرونی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہاں مسجدوں کو منہدم کرنے کی کارروائی حکومت کی جانب سے کی گئی ہے جبکہ حکومت نے اس الزام کی تردید کی ہے حالانکہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں نمازیوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔
شنجیانگ میں مذہبی آزادی پر پابندی، بچے نہیں رکھ سکتے رمضان میں روزہ کاشگر کے تاریخی سلک روڈ شہر میں واقع عید گاہ مسجد میں ایک دہائی قبل جمعہ کی نماز کے دوران چار ہزار سے پانچ ہزار نمازی جمع ہوتے تھے۔
مسجد کے امام کا کہنا ہے کہ اب یہاں صرف 800 سے 900 نمازی ہی نماز جمعہ میں شریک ہوتے ہیں۔
انہوں نے نمازیوں کی کمی کے لئے حکومتی پالیسی کے بجائے لوگوں میں ہونے والی نظریاتی تبدیلی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان نسل اپنے زیادہ وقت کو عبادت کے بجائے کام کے لئے صرف کرنا چاہتی ہے۔
چین میں مذہبی بدسلوکی کے الزام کو مسترد کرنے کے لئے حکومت نے اپریل ماہ میں درجنوں غیر ملکی میڈیا نمائندوں کو شنجیانگ کا پانچ روزہ دورہ کرایا۔
بیجنگ کا کہنا ہے کہ وہ مذہب کی آزادی کی حفاظت کرتا ہے اور جب تک شہری قوانین اور قواعد و ضوابط پر عمل پیرا ہوں گے تب تک وہ اپنے عقیدے پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔
عملی طور پر اس کا مطلب ہے کہ شنجیانگ کے تقریباً ہر مقام پر کسی بھی مذہبی سرگرمی کو پابندیوں کے مطابق ہونا چاہئے۔
ایک پرائمری اسکول میں ہیڈماسٹر کا کہنا ہے کہ یہاں مخلتف مذاہب کے بچے ہونے اور تعلیم کے باعث روزہ رکھنے پر پابندی ہے، وہیں سوت کی فیکٹری میں کام کرنے والوں پر کام کے مقام پر عبادت کرنے پر پابندی ہے یہاں تک کہ مزدور اپنے ہاسٹل روم میں بھی عبادت نہیں کر سکتے ہیں۔
اکسو ہوفو ٹیکسٹائل کمپنی کے جنرل منیجر لی کیانگ کا کہنا ہے کہ "فیکٹری میں اس کی ممانعت ہے۔ لیکن وہ گھر جاسکتے ہیں، یا مسجد میں نماز ادا کرنے جاسکتے ہیں۔" ہم لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اچھی طرح آرام کریں تاکہ وہ صحتمند رہ سکیں۔
شنجیانگ میں ترک گروہ ویغوروں کا گھر ہے جو طویل عرصے سے اسلام کے پیروکار ہیں۔
انہوں نے حالیہ برسوں میں ہنگاموں، بم دھماکوں سمیت ان کے خلاف کی جانے والی سخت حکومتی کاروائیوں کا مقابلہ کیا ہے۔ حالانکہ قازق اور دیگر نسلی باشندے بھی اب حکومتی کاروائی کا نشانہ بن رہے ہیں۔
حکام خطے میں آزادانہ رپورٹنگ میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں، حالانکہ حال ہی میں اس طرح کے اقدامات میں کچھ حد تک آسانی آئی ہے۔
حالیہ برسوں میں شنجیانگ کے دورے پر پہنچنے والے اے پی کے صحافی کو خفیہ افسروں نے روکا، ان سے پوچھ گچھ کی اور فوٹو یا ویڈیو کو ڈلیٹ کرنے پر مجبور کیا ہے۔
عہدیداروں نے دورہ پر پہنچے والے صحافیوں کو ایک ٹرک ڈرائیور مماتجان احاط سے ملوایا، جس کا کہنا تھا کہ وہ اپنے فون پر انتہا پسند مذہبی مواد دیکھنے کے بعد رضاکارانہ طور پر ایک "پیشہ ورانہ تربیتی مرکز" گیا تھا۔ وہ اس سے قبل اسلام پر عمل کرتا تھا۔
چین کے ان مراکز کو، یہاں سے بھاگنے والے لوگوں نے حراستی کیمپ قرار دیا ہے، جہاں ہر طرح کی پابندیاں عائد ہوتی ہے، بجلی کے جھٹکے دئے جاتے ہیں اور کئی طرح سے مظالم کئے جاتے ہیں۔
احاط نے کہا کہ "مرکز میں پہنچنے پر، مجھے لگا کہ مجھے یہاں بہت پہلے پہنچنا چاہئے تھا، کیونکہ مرکز میں بہت ساری سہولیات اور ایک کیفے ٹیریا موجود ہے جو ہمارے لئے بہت اچھا کھانا مہیا کرتا ہے۔"
احاط نے کہا کہ وہ اب کسی بھی مذہب پر یقین نہیں رکھتا ہے۔ کیونکہ "مرکز" میں اس نے "بہت کچھ سیکھا اور وہ زیادہ آزاد ذہن بن گیا ہے۔"
چینی شہریوں کو یہ حق ہے کہ وہ اسلام، عیسائیت یا تین دیگر ریاستوں کے تسلیم شدہ مذاہب کی پیروی کریں۔ لیکن عملی طور پر بہت سے انتباہ ہیں۔ فیکٹری کے منیجر نے بتایا کہ مزدور روزے کے لئے آزاد ہیں لیکن انہیں اپنے جسموں کی دیکھ بھال کرنے کی ضرورت ہے۔
عیدگاہ مسجد کے امام نے بتایا کہ اگر بچے روزہ رکھتے ہیں تو یہ ان کی نشوونما کے لئے اچھا نہیں ہے۔
آسٹریلیائی اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ جو ایک تھنک ٹینک ہے، نے گذشتہ سال اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ ویغوروں اور اسلامی ثقافت کو مٹانے کے لئے مسجدوں کو منہدم کیا گیا اور نقصان پہنچایا گیا ہے۔ حالانکہ چین کی حکومت مسجد کی انہدامی کاروائی سے انکار کرتی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ انہوں نے مسجدوں کی تجدیدکاری کے لئے رقم فراہم کی ہے اور مسجدوں میں پنکھے، کمپیوٹر اور ایئر کنیشن لگوایا ہے۔
ایک عوامی چوک پر واقع زرد رنگ کی عید گاہ مسجد پر انہدامی کاروائی نہیں کی گئی ہے۔ اس مسجد کے امام نے حکومتی لائن پر بات کی اور حکومت کی امداد کے لئے حکومت کا شکریہ ادا کیا، جس نے پانچ سو سال پرانی مسجد کی تجدیدکاری کی ہے۔
عید گاہ مسجد کے میدانوں میں درختوں سے جڑے ہوئے راستے پُرسکون ہیں اور جو بھی یہاں داخل ہوتا ہے اس کی نگرانی کے لئے تین کیمرے نصب کئے گئے ہیں۔
موجودہ امام کے والد اور مسجد کے سابقہ امام کو حکومت نواز موقف کے سبب سن 2014 میں انتہا پسندوں نے قتل کردیا تھا۔
حالیہ پیر کی شام یہاں تقریباً پچاس افراد نے نماز ادا کی، نمازیوں میں زیادہ تر بزرگ ہی تھے۔
2012 میں اس علاقے سے فرار ہوئے ویغور کے ایک امام نے کہا کہ نابالغ بچوں کے لئے مذہبی تعلیم پر پابندی کا مطلب یہ ہے کہ نوجوانوں کو وہ علم حاصل نہیں ہو رہا ہے جو انہیں ہونا چاہئے۔
علی اکبر دم اللہ نے کہا کہ "اگلی نسل چینی ذہنیت کو قبول کرلے گی،" انہوں نے کہا کہ وہ پھر بھی یغور کہلائیں گے لیکن ان کی ذہنیت بدل جائے گی۔ علی اکبر فی الحال ترکی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جو لوگ اسلام کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ 18 سال کی عمر کے بعد ایک سرکار کے زیر اہتمام اسلامی اسٹڈی انسٹی ٹیوٹ میں حاصل کر سکتے ہیں۔
شنجیانگ کے دارالحکومت اروومقی کے نواح میں ایک نو تعمیر شدہ کیمپس میں حکومت کے نصاب کے مطابق سینکڑوں افراد امام بننے کی تربیت حاصل کر رہے ہیں اور ایک درسی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں جس میں "محب وطن مذہب کا ایک جز ہے" اور ''ایسے مسلمان بنیں جو مادر وطن سے محبت کرتے ہیں اور قومی آئین اور قوانین و ضوابط کی پاسداری کرتے ہیں'' جیسے سبق بڑھائے جاتے ہیں۔
چین میں مذہب کی آزادی کو "یقین کرنے یا نہ ماننے" کی آزادی سے تعبیر کیا گیا ہے۔
شنجیانگ اسلامک انسٹی ٹیوٹ کے ایک طالب علم عمر عدیل عبداللہ نے بتایا کہ "چونکہ مذہبی آزادی چین کے آئین میں شامل ہے، لہذا وہ ہر فرد کو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔"
"اگر آپ مذہب پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو، آپ یہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ نہیں چاہتے ہیں تو، آپ بس نہیں کریں گے۔ یہ مکمل طور پر آزاد ہے۔"
ظاہر چین بھلے ہی کچھ مقامات کا دورہ کرا کر خود کو انصاف پسند بتانے کی کوشش کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین میں مذہبی آزادی کے نام پر بہت ساری پابندی عائد کی گئی ہے اور کسی کو بھی 18 سال سے قبل مذہبی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔