فلسطینی ٹیکس فنڈز میں لاکھوں ڈالر روکنے کے اسرائیلی فیصلے پر ویسٹ بینک کے فلسطینیوں میں ناراضگی ہے۔
ویسٹ بینک کے عام شہری سے لیکر سرکاری سطح تک ٹیکس فنڈز روکنے کے اسرائیلی فیصلے کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کیا ہے۔
اسرائیلی میڈیا رپورٹ کے مطابق گذشتہ اتوار کو اسرائیلی سکیورٹی کابینہ نے 43 ملین امریکی ڈالر ٹیکس فنڈز روکنے کے حق میں ووٹنگ کی ہے۔
اسرائیلی سکیورٹی کابینہ کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا، کیوں کہ اس رقم کا استعمال تشدد کو فروغ دینے کے لیے کیا جاتا ہے۔
فلسطین کی سیاسی جماعت 'پی ایل او' کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر حنان اشراوی کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ اسرائیل کی پالیسی کا ایک حصہ ہے، کیوں کہ اسرائیل فلسطینی عوام کو سزا دینا چاہتا ہے۔
اشراوی کا مزید کہنا ہے کہ فلسطین پہلے ہی سے معاشی بحران کا شکار ہے، اور اب اس اقدام سے بحران میں مزید اضافہ ہو گا۔ اس لیے جب تک اسرائیل پر حقیقی معنوں میں بین الاقوامی سطح پر دباو نہیں ڈالا جائے گا، فلسطینیوں کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔
انہوں نے اسرائیلی اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ قدم شہدا، قیدیوں اور زخمیوں کے لواحقین کو بلیک میل کرتا ہے، لیکن وہ اپنی ذمہ داریاں نبھاتی رہیں گی، جو اس معاشی بحران کے اضافے کے باوجود ان کی ترجیح ہو گی۔
اس سلسلے میں اسرائیل کا کہنا ہے کہ مختلف رپورٹز کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ فلسطین اس فنڈز سے ایسے افراد کے اہل خانہ کا تعاون کرتا رہا ہے، جو اسرائیل پر حملہ کرنے کے نتیجے میں یا تو ہلاک ہوئے ہیں، یا جیلوں میں قید ہیں۔
اسرائیل کا ماننا ہے کہ نام نہاد 'مارٹیئرز فنڈ' کے نتیجے میں تشدد پیدا ہوتا ہے۔ تاہم فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ تشدد اور اسرائیلی قبضے سے متاثر ہونے والے خاندانوں کی مدد کے لیے ادائیگیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ معاہدوں کے تحت، اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کی جانب سے کسٹم اور دیگر ٹیکسز یکجا کرتی ہے اور یہ رقم فلسطینی اتھارٹی کو منتقل کی جاتی ہے۔
عوام کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے معاشی زندگی متاثر ہوگی، کیونکہ ملک، ملازمین کی تنخواہوں پر منحصر ہے۔ ملک کی معاشی صورتحال خراب ہے، اور عوام کو اسرائیلی زیادتیوں کو قبول نہیں کرنا چاہئے، ایک ساتھ مل کر اسرائیل کے ان اقدامات کو مسترد کرنا چاہیے۔
غور طلب ہے کہ اسرائیل نے گذشتہ برس ٹیکس فندز کی کٹوتی کے لیے ایک قانون پاس کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ فلسطین عسکریت پسندوں کے اہل خانہ کی حمایت کرتا ہے۔ تاہم فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ یہ ان کی رقم ہے، اور اس رقم پر انہیں کا حق ہے۔