ایک پاکستانی جریدے نے بین الاقومی نیوز ایجنسی کے حوالے سے کہا: 'اگر بھارت 5 اگست 2019 کو لیے گئے فیصلوں پر نظر ثانی کے لیے راضی ہے تو پاکستان بھی تمام دیرینہ معاملات و تنازعات کو بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے حل کرنے میں خوشی محسوس کرے گا'۔
شاہ محمود قریشی نے ان باتوں کا اظہار ترکی کے دو روزہ دورے کے دوران کیا۔
قابل ذکر ہے کہ 5 اگست 2019کو بی جے پی کی حکومت نے دفعہ 370 اور 35 اے کو منسوخ کرکے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ کو کالعدم قرار دینے کے علاوہ اسے دو وفاقی علاقوں - جموں و کشمیر- اور -لداخ- میں تقسیم کر دیا۔
شاہ محمود نے مزید کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کے کئی معاملات التوا میں ہیں جن میں کشمیر، سیاچن، سر کریک، پانی سمیت دیگر معاملات شامل ہیں۔ جبکہ انکے مطابق سبھی معاملات کو سنجیدگی کے ساتھ بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’’ہم جنگ کے متحمل نہیں، اگر ایسا ہوا تو یہ یقینا باہمی خود کشی کے مترادف ہوگا۔ اور کوئی سمجھدار فرد اس نوعیت کی پالیسی کی حمایت نہیں کرے گا۔ لہذا ہمیں سبھی معاملات پر سنجیدگی کے ساتھ بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘