کورونا وائرس وبا کے دوران افغانستان کے دارالحکومت کابل میں گزشتہ سات سالوں سے بند آکسیجن فیکٹری کو دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔
نجیب اللہ صدیقی کی آکسیجن فیکٹری بجلی کٹوتی اور اسپتالوں کے ساتھ معاہدے میں ہو رہی بد عنوانی کے باعث بند ہو گئی تھی۔
اب اس فیکٹری سے کورونا وائرس مثبت مریضوں کے لئے مفت میں آکسیجن کے سیلنڈر کو بھرا جا رہا ہے۔
صدیقی نے کہا کہ آکسیجن کی کمی کے باعث کوویڈ 19 متاثر مریض کی موت دیکھنے کے بعد انہوں نے بند پڑی اپنی فیکٹری کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک شخص کو کورونا وائرس متاثرہ اس کی اہلیہ کی موت پر چیختے، پکارتے دیکھا جس نے آکسیکن کی کمی کے باعث دم توڑ دیا تھا۔ اسی وقت میں نے 7 سالوں سے بند اپنی فیکٹری کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا۔
فیکٹری میں 12 افراد دو شفٹوں میں کام کر کورونا مریضوں کے لئے آکسیجن کا انتظام کر رہے ہیں اور 200 سے 300 چھوٹے سیلنڈر مفت میں بھر کر لوگوں کی جان بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ اسپتالوں اور ریٹیل دکانداروں کو 700 بڑے سیلینڈر 300 افغانی کرنسی یعنی 3.8 یو ایس ڈی ڈالر میں فراہم کیا جا رہا ہے۔
یہ قیمت افغانستان میں آکسیجن کی قیمت کے مقابلے بہت کم ہے اور یہ مفت میں دی جانے والی آکسیجن کے 15 فیصد اخراجات کو بھی پورا کرتا ہے۔
افغان میڈیا نے گذشتہ ہفتے اطلاع دی تھی کہ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے سرکاری اسپتالوں میں کوویڈ 19 کے متعدد مریضوں نے دم توڑ دیا تھا حالانکہ حکومت نے ان خبروں کی تردید کی ہے۔