پاکستان اتوار کو 57 رکنی اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے ایک خصوصی اجلاس کی میزبانی Pakistan Host OIC Summit کر رہا ہے جس میں افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال اور ابھرتے ہوئے انسانی اور اقتصادی بحران سے نکلنے کا راستہ تلاش کیا جا رہا ہے۔
اس اجلاس میں او آئی سی کے ارکان کے علاوہ 70 مندوبین شرکت کر رہے ہیں جس میں امریکا، روس، برطانیہ، یورپی یونین، ورلڈ بینک اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے وفود کے خصوصی نمائندے قابل ذکر ہیں۔
وہیں اس دوران بھارت نے بھی آج یعنی اتوار کو افغانستان میں انسانی بحران اور علاقائی روابط پر وسطی ایشیائی ممالک سے مذاکرات India-Central Asia Dialogue کیا ہے۔ جس میں ترکمانستان، قازقستان، تاجکستان، کرغزستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔ تاہم ان ممالک کے وفود پاکستان میں ہونے والے اجلاس میں اپنے اپنے ممالک کی نمائندگی ضرور کر رہے ہیں۔
اس ایک روزہ بھارت-وسطی ایشیا ڈائیلاگ India-Central Asia Dialogue کی تیسری میٹنگ کی صدارت وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کیا، جس میں بھارت نے چابہار بندرگاہ کے استعمال میں وسط ایشیائی ممالک کی دلچسپی کا خیر مقدم کیا ہے۔
نئی دہلی میں بھارت-وسطی ایشیا ڈائیلاگ India-Central Asia Dialogue in New Delhi کے بعد مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ بھارت نے اتوار کو چابہار بندرگاہ پر شاہد بہشتی ٹرمینل کی خدمات سے استفادہ کرنے میں وسطی ایشیائی ممالک کی دلچسپی کا خیرمقدم کیا ہے تاکہ بھارت اور اس سے باہر تجارت کو آسان بنایا جا سکے۔
بھارت اور وسطی ایشیا کے پانچ دیگر ممالک کے وزیر خارجہ نے بھارت اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان رابطے کو بڑھانے کے لیے بین الاقوامی شمالی-جنوبی ٹرانسپورٹ کوریڈور کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی نقل و حمل اور ٹرانزٹ کوریڈور پر اشگابت معاہدے کے زیادہ سے زیادہ استعمال پر بھی زور دیا۔
انہوں نے زور دیا کہ رابطے کے اقدامات شفافیت، وسیع شراکت، مقامی ترجیحات، مالی استحکام اور تمام ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام کے اصولوں پر مبنی ہونے چاہیے۔
2018 میں، ایران اور بھارت نے جنوب مشرقی ایران میں چابہار بندرگاہ کی ترقی کے لیے 85 ملین امریکی ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔یہ بندرگاہ خلیج عمان میں واقع ہے، جو بھارت اور افغانستان کے درمیان تجارت کے لیے ایک متبادل راستہ فراہم کرتی ہے۔