اردو

urdu

ETV Bharat / international

HRW on Myanmar: میانمار میں فوج مخالف مظاہرین کو منصوبہ بند طریقہ سے ہلاک کیا گیا

ہیومن رائٹس واچ ڈاگ Human Rights Watchdog نے جمعرات کو جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا کہ میانمار فورسز Myanmar Forces نے اس سال 14 مارچ کو سب سے بڑے شہر ینگون میں کم از کم 65 مظاہرین کا قتل منصوبہ بند تھا، اس لیے ان مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔

By

Published : Dec 2, 2021, 9:15 PM IST

Myanmar forces purposely killed anti military protesters  says Human Rights Watchdog
میانمار میں فوج مخالف مظاہرین کو منصوبہ بند طریقہ سے ہلاک کیا گیا

ہیومن رائٹس واچ ڈاگ Human Rights Watchdog نے جمعرات کو ایک رپورٹ جاری کی، جس میں میانمار فورسز Myanmar Forces پر الزام لگایا گیا کہ وہ یکم فروری کو فوجی بغاوت کے بعد جمہوری طور پر منتخب آنگ سان سوچی کی حکومت کی بحالی کا مطالبہ کرنے والے ہجوم کے خلاف جان بوجھ کر گھیرے میں لے رہے ہیں اور ان پر مہلک طاقت کا استعمال کر رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق سیکورٹی فورسز Myanmar forces پر ینگون کے محنت کش طبقے کے محلے ہلینگ تھریار میں ہجوم کے خلاف مہلک طاقت کا استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا ہے، جس میں کم از کم 65 مظاہرین ہلاک ہوئے تھے۔

نیویارک میں قائم تنظیم نے کہا، "فوجی حملہ آور رائفلوں سے لیس سپاہیوں اور پولیس نے پھنسے ہوئے مظاہرین اور زخمیوں کی مدد کرنے کی کوشش کرنے والوں پر گولیاں چلائیں، جس سے کم از کم 65 مظاہرین اور راہگیر ہلاک ہو گئے۔"

تشدد کے بعد علاقے میں مارشل لاء نافذ کرنے والی فوجی حکومت نے مظاہرین کو فسادی قرار دیا ہے جنہوں نے گارمنٹس فیکٹریوں کو جلا دیا اور فائر فائٹرز کو روک دیا۔

ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز کے کسی رکن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ کوئی بھی سرکاری اہلکار فوری طور پر تبصرہ کے لیے دستیاب نہیں تھا۔

ہیومن رائٹس واچ کے میانمار کے ریسرچر مینی مونگ نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ سیکیورٹی فورسز کے اقدامات قتل انسانیت کے خلاف جرم ہیں۔ اس لیے ان مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا "بالآخر، ذمہ داری کمانڈ کے ڈھانچے کی ہے اور جو بھی کریک ڈاؤن کا حکم دینے اور کریک ڈاؤن کو نافذ کرنے کا ذمہ دار تھا وہ ذمہ دار ہے،"۔ ان کی رائے کے مطابق اس قتل عام کے ذمہ دار یہ ینگون کے علاقائی فوجی کمانڈر اور شہر کے پولیس چیف ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

ہیومن رائٹس واچ Human Rights Watchdog نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ "میانمار میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور انسانیت کے خلاف جرائم کا جواب فوج کے خلاف بین الاقوامی پابندیوں کی تکمیل، مضبوطی اور ہم آہنگی کے ذریعے دیں۔" امریکہ اور دیگر ممالک پہلے ہی سفارتی اور اقتصادی پابندیاں برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

میانمار میں فوج کے قبضے کے بعد سے کم از کم 1,300 مظاہرین اور راہگیر مارے جا چکے ہیں۔

مینی مونگ نے کہا۔ میانمار میں خلاف ورزیاں جاری ہیں، اب اس بات کو اٹھانے کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ نو ماہ قبل جو کچھ بھی ہوا وہ اب بھی اہم ہے کیونکہ ہم ان لوگوں کا احتساب کریں گے اور ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ انہوں نے یہ کام ارادے سے کیا تھا۔

واضح رہے کہ سال 2020 میں ریاستی کونسلر ڈاؤ آنگ سان سوچی نے بڑے مارجن سے الیکشن جیتا تھا لیکن فوج نے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

یکم فروری کو یہاں فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک ایک ہزار سے زیادہ شہری مارے جا چکے ہیں اور یہی مسلح بغاوت کی وجہ بھی بنی ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ساگانگ ان علاقوں میں سے ایک ہے جس نے سب سے پہلے جنتا فوجی حکمرانی کے خلاف بغاوت شروع کی۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details