جمعے کی علی الصبح ترکی کی متعدد بکتر بند فوجی گاڑیاں، جن میں ٹینکز بھی شامل ہیں، باغیوں کے زیر کنٹرول شام کے علاقے میں داخل ہوتے دیکھی گئی ہیں۔
رواں ہفتے شام کی سرحد میں داخل ہونے والا ترکی کا دوسرا فوجی دستہ ہے۔ رفتہ رفتہ ترکی شام کے باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں اپنی فوجیں بڑھا رہا ہے۔
خیال رہے کہ موجودہ حالات میں ترکی اور شامی فوجیں ایک دوسرے کے سامنے تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ اس دوران شام میں باغیوں کے علاقے پر روسی فوجیں بھی مسلسل بمباری کری رہی ہیں۔
شام میں جنگ کی پیچیدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ شامی فوج سے جہاں ایک طرف ترکی کی فوج بر سر پیکار ہے، وہیں جبہۃ الشام کے عسکریت پسند، فری سیرین آرمی کے افراد اور کرد نسل کے لوگ بھی شامی حکومت کے خلاف جنگ میں حصہ لے رہے ہیں۔
شامی حکومت کو روس کی حمایت حاصل ہے، تو وہیں باغیوں کو ترکی کی حمایت حاصل ہے۔ جبکہ کرد نسل کے عسکریت پسند ترکی حکومت کے خلاف ہیں۔ یہ سبھی یک ہی ملک یعنی شام میں جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان سب کے مقاصد ایک دوسرے سے علیحدہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ شام میں جنگ کی پیچیدگیوں کو سمجھنا مشکل ہو گیا ہے۔ امریکہ شامی حکومت کے خلاف ہے، لیکن ایران اور روس شامی حکومت کی حمایت میں ہیں۔
ان سب کے دوران شامی عوام کو قیمتیں چکانی پڑ رہی ہیں۔ اور فی الحال شام میں افرا تفری کا ماحول ہے۔ وہاں کی معیشت جنگ سے بری طرح متاثر ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ لاکھوں افراد جنگ کے سبب بے گھر ہو چکے ہیں۔
دیکھنے والی بات یہ ہو گی کہ شامی باشندوں کو کب راحت کی سانس نصیب ہو گی۔ اور ان معاملات کیسے حل کیا جا سکے گا۔