گذشتہ کئی برسوں سے عالمی سطح پر 'بریگزٹ' سے متعلق خبریں میڈیا میں موضوع بحث بنی ہوئی ہیں۔ خاص طور پر سنہ 2016 سے بریگزٹ مسلسل سرخیوں میں ہے۔
بریگزٹ کی کہانی آسان انداز میں: ویڈیو اس لیے آئیے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بریگزٹ کی پوری کہانی کیا ہے؟ بریگزٹ کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے اس کا تاریخی پس منظر سمجھنا بے حد ضروری ہے۔
دنیا کے سات برّ اعظموں میں سے ایک براعظم 'یورپ' کے 28 ممالک کے ایک عظیم اتحاد کو 'یورپین یونین' کہا جاتا ہے۔ انہیں 28 میں سے برطانیہ بھی ایک ہے۔ اور برطانیہ اس عظیم اتحاد کو چھوڑنا چاہتا ہے، اسی کو 'بریگزٹ' کہتے ہیں۔ لیکن بریگزٹ سے زیادہ بریگزٹ ڈیل سرخیوں میں ہے۔ اس کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے مزید تفصیلات کو آسان انداز میں سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔
یورپین یونین کے ممالک کا نقشہ یورپی اتحاد کے 28 ممالک کے نام
فن لینڈ، سویڈن، اسٹونیا، لتھووینیا، لٹویا، پولینڈ، سلوواکیا، ہنگری، رومانیہ، بلغاریہ، یونان، قبرض، مالٹا، اٹلی، اسپین، پرتگال، فرانس، سلووینیا، آسٹریا، چیک جمہوریہ، بیلجیئم، ہالینڈ، جرمنی، ڈنمارک، لکسمبرگ، آئرلینڈ اور برطانیہ۔
یورپی اتحاد کے 28 ممالک کے نام اتحادی ممالک کے درمیان آزاد نقل و حرکت
یورپی یونین کے رکن ممالک کا کوئی بھی باشندہ یونین کے کسی بھی ملک میں رہائش اختیار کرنے کے علاوہ ملازمت، کاروبار اور سیاحت کر سکتا ہے۔ اس کے لیے پاسپورٹ، ویزا یا دیگر دستاویزات کی کوئی ضرورت نہیں۔
بالکل اسی طرح کسی ایک ملک کی مصنوعات بھی یونین کے دیگر ممالک میں بغیر کسی ٹیکس اور ٹیرف کے فروخت کی جا سکتی ہیں۔
یورپین ممالک کے متحد ہونے کی اہم وجوہات
پہلی وجہ: پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کو کسی تیسری جنگ سے بچانا، اور سبھی اتحادی ممالک کے درمیان بغیر کسی ٹیرف کے آزادانہ طور پر تجارت کرنا تھا۔ اس اتحاد کی کوشش تھی کی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طرح معاشی اور سیاسی سپر پاور کا درجہ حاصل کیا جا سکے۔
دوسری وجہ: دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کے سبھی ممالک پُرامن انداز میں رہ سکیں اور ایک دوسرے کی معاشی مدد کر سکیں۔
انہیں مقاصد کے تحت 23 جولائی سنہ 1952ء میں مغربی جرمنی، فرانس، اٹلی، بیلجیئم، نیدرلینڈز اور لکسمبرگ نے کوئلے اور اسٹیل کی ایک کمیٹی تشکیل دی، جس کا نام 'یورپین کمیونٹی' رکھا گیا۔
بعد ازاں یکم جنوری سنہ 1958 میں کمیٹی کے رکن ممالک نے اٹلی کے دارالحکومت روم میں ایک دیگر معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے 'یورپین اقتصادی کمیونٹی' کی تشکیل دی۔ اب یہ کمیونٹی کوئلے، اسٹیل اور تجارت کے لیے تشکیل دی گئی تھی۔ رفتہ رفتہ یورپ کے ممالک اس کمیونٹی میں شامل ہونے لگے۔
سنہ 1973 میں 'یونائٹیڈ کنگڈم' (برطانیہ) نے بھی 'یورپی اقتصادی کمیونیٹی' میں شمولیت اختیار کر لی۔
شمولیت کے دو برسوں کے بعد ہی سنہ 1975 میں یوکے کی عوام میں پہلی بار 'یورپین اقتصادی کمیونیٹی' سے باہر نکلنے کے لیے آواز اٹھنی شروع ہو گئی۔
آخرکار یوکے میں اس کے لیے ریفرنڈم کرائے گئے، لیکن 68 فیصد یوکے کے باشندوں نے کمیونٹی کا حصہ بنے رہنے کے حق میں ووٹ دیا اور اس طرح یوکے 'یورپی اقتصادی کمیونٹی' کا حصہ برقرار رہا۔
یکم نومبر سنہ 1993 میں 'ماسٹرچٹ' نامی ایک معاہدے کے تحت 'یورپین اقتصادی کمیونٹی' کا نام بدل کر 'یورپین یونین' رکھ دیا گیا۔ اب یہ ممالک نہ صرف سیاست اور اقتصادیات، بلکہ قوانین اور خارجی معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے گے۔
سنہ 2004 میں یورپین یونین نے اپنی کرنسی 'یورو' کو بھی لانچ کر دیا۔ فی الحال 28 ممالک میں سے 19 ممالک یورو کرنسی کا استعمال کرتے ہیں۔
یورپین یونین کی اپنی پارلیمنٹ بھی ہے۔ اس کا دارالحکومت برسلس، جو کہ بیلجیئم کا بھی دارالحکومت ہے۔ یورپین یونین کی پارلیمنٹ میں بنایا گیا قانون سبھی رکن ممالک پر نافذ ہوتا ہے۔
سنہ 2010 کے بعد کچھ ایسے حالات پیش آئے کہ تقریبا 37 برسوں کے بعد برطانوی عوام نے دوبارہ ریفرنڈم کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔ اس بار ریفرنڈم کے مطالبے سے متعلق 'یوکپ' یعنی یونائٹیڈ کنگڈم انڈیپنڈینٹ پارٹی نے اہم کردار ادا کیا۔
در اصل 'یوکپ' کا قیام ہی اسی مقصد کے تحت ہوا تھا کہ برطانیہ کو 'یورپین یونین' سے علیحدہ کروانا ہے۔ سنہ 2014 کے یورپین یونین کے انتخاب میں 'یوکپ' نے حصہ لیا اور تقریبا 25 فیصد ووٹ کے ساتھ 'یوکے' میں سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری۔
یونائیٹیڈ کنگڈم انڈپینڈینٹ پارٹی سنہ 2015 میں 'یوکے' میں عام انتخابات ہوئے جس کے تحت برطانیہ میں وزیر اعظم کا انتخاب ہونا تھا۔ اس انتخاب میں کنزرویٹیو پارٹی کے اُس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے 'یوکپ' کی بڑھتی مقبولیت کو کم کرنے اور اس کے ووٹرز کو اپنے پالے میں لانے کے مقصد سے ایک انتخابی وعدہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آئیں گے تو وہ ایک ریفرنڈم کرائیں گے، جس کے تحت یوکے کے باشندے اس بات کا فیصلہ کر سکیں گے کہ انہیں 'یورپین یونین' کا حصہ بنے رہنا ہے یا پھر اس سے باہر نکلنا ہے۔
سابق برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اس وعدے سے کیمرون کی کنزرویٹیو پارٹی کو فائدہ ہوا اور انہیں دوبارہ عام انتخابات میں کامیابی ملی۔ یوکپ کو اس انتخاب میں محض 12 فیصد ہی ووٹ ملے۔ کیوں کہ کیمرون نے یوکپ کا ایجنڈا ہیک کر لیا تھا۔
اب جب ڈیوڈ کیمرون نے دوبارہ وزیر اعظم کے طور پر حلف لیا، تو انہیں عوام سے کیا گیا ریفرنڈم کا وعدہ نبھانا تھا۔ خیال رہے کہ ڈیوڈ کیمرون بذات خود یورپین یونین کے ساتھ بنے رہنے کے حامی تھے۔
انہوں نے اپنے انتخابی وعدے کے تحت 23 جون سنہ 2016 کو ایک عوامی ریفرنڈم کرایا۔ اس میں تقریبا 52 فیصد برطانوی باشندوں نے بریگزٹ یعنی برطانیہ کے یورپین یونین سے باہر نکلنے کے حق میں ووٹ دیا۔
اس طرح یہ واضح ہو گیا کہ اب یونائیٹیڈ کنگڈم 'یورپین یونین' کا حصہ نہیں رہے گا۔
اس ریفرنڈم کے بعد ڈیوڈ کیمرون نے وزیر اعظم کے عہدے سے اخلاقی طور پر استعفی دے دیا۔ بعد ازاں کنزرویٹیو پارٹی کی وزیر داخلہ ٹریزا مے کو اگلے وزیر اعظم کے طور پر حلف دلایا گیا۔ اور ٹریزا مے پر 'بریگزٹ' کی مکمل ذمہ داری ڈال دی گئی۔
بریگزٹ آخر ہے کیا؟
در اصل بریگزٹ کی اصطلاح دو لفظوں کا مجموعہ ہے۔ پہلا 'بر' یعنی برٹین (برطانیہ) دوسرا 'یگزٹ' یعنی باہر نکلنا۔ بریگزٹ یعنی برطانیہ کا یورپین یونین سے باہر نکلنا۔ سنہ 2016 کے عوامی ریفرنڈم کے مطابق رواں ماہ کی 31 تاریخ کو برطانیہ کو یورپین یونین سے علیحدگی اختیار کرنا تھا، تاہم فی الحال اس تاریخ میں توسیع کر دی گئی ہے۔
بریگزٹ کو مزید بہتر طریقے سے سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یوکے کے بارے میں جاننا ہو گا۔ در اصل یوکے یعنی یونائٹیڈ کنگڈم اس میں چار ممالک شامل ہیں۔
پہلا برطانیہ دوسرا اسکاٹ لینڈ تیسرا شمالی آئرلینڈ چوتھا ویلز۔ ان چاروں ممالک سے ملکر یوکے بنتا ہے۔
یونائٹیڈ کنگڈم کا نقشہ
بریگزٹ ڈیل کیا ہے؟
در اصل برطانیہ چاہتا ہے کہ 'بریگزٹ' کے ساتھ ہی یورپین یونین سے ایک ایسا معاہدہ ہو جائے، جس سے برطانیہ کی معاشی اور دیگر امور کو یورپین یونین کے ساتھ جاری رکھا جا سکے۔ اسی کو بریگزٹ ڈیل کہتے ہیں۔
اگر بریگزٹ ہو گا تو دو حال سے خالی نہیں، یا تو ہارڈ بریگزٹ ہو گا یا پھر سافٹ بریگزٹ ہوگا۔
ہارڈ بریگزٹ اور سافٹ بریگزٹ، کیا ہیں؟
ہارڈ بریگزٹ: یعنی اگر برطانیہ یورپین یونین سے بغیر کسی معاہدے کے علیحدہ ہو گا تو اسے ہارڈ بریگزٹ کہیں گے۔
سافٹ بریگزٹ: اگر برطانیہ کسی معاہدے کے ساتھ یورپین یونین سے علیحدگی اختیار کرے گا، تو اسے سافٹ بریگزٹ کہیں گے۔
اسی سافٹ بریگزٹ کی کوشش میں سابق وزیر اعظم ٹریزا مے لگی ہوئی تھیں، لیکن برطانوی پارلیمنٹ سے اس سے متعلق بل پاس نہیں کروا سکیں، یہی وجہ تھی کہ انہیں بھی سنہ 2019 میں وزیر اعظم کے عہدے سے استعفی دینا پڑ گیا۔
بعد ازاں کنزرویٹیو پارٹی کے رہنما اور بریگزٹ مہم کو لیڈ کرنے والوں میں پیش پیش رہنے والے بریگزٹ کے حامی بورس جانسن کو وزیر اعظم بنایا گیا۔
بریگزٹ کے حامی کیا کہتے ہیں؟
در اصل یورپین یونین برطانیہ سے ہر برس تقریبا 13 بلین یورو کی رقم بطور فیس وصول کرتا ہے۔ اس کے بدلے برطانیہ کو محض 7 بلین یورو ہی ملتے ہیں۔ خیال رہے کہ یونین کے سبھی ممالک کو ہر برس ان کے معیشت کے مطابق ممبرشپ کی فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔ اور برطانیہ کو ان 28 ممالک میں سب سے زیادہ فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔
دوسری وجہ 'ریڈ ٹیپ' کی کثرت یعنی یورپین یونین کا حصہ ہونے کی وجہ سے برطانیہ میں کسی بھی انتظامی کارروائی کے لیے مختلف طرح کی پیچیدگیاں ہیں، متعدد دفتروں کے ذریعہ مختلف طرح کے دستاویزی کارروائی کے مراحل سے گذرنا پڑتا ہے۔ ان سبھی پیچیدگیوں کے سبب برطانیہ کی ترقی حتی الامکان نہیں ہو پا رہی ہے۔
تیسری وجہ برطانوی حکومت کی خود مختاری متاثر ہوتی ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ یورپین یونین برطانوی باشندوں کے حقوق سے متعلق قانون بنانے کے معاملے میں برطانوی پارلیمنٹ کو اختیار نہیں دیتا ہے۔
چوتھی وجہ ایمیگریشن، یعنی برطانیہ میں لوگوں کی بے تحاشہ آمد، مثلا شام میں جنگ کے سبب شامی مہاجرین یورپین ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ اور مہاجرین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ترقی یافتہ ممالک میں جائیں۔ اس طرح برطانیہ میں سب سے زیادہ مہاجرین آ جاتے ہیں، حالانکہ برطانیہ ایک حد تک ہی امیگریشن چاہتا ہے، لیکن یورپین یونین کے قوانین کے تحت وہ ایسا نہیں کر سکتا ہے۔
پانچویں وجہ معیشت سے متعلق ہے۔ یعنی اگر برطانیہ یورپین یونین سے علیحدہ ہو جاتا ہے تو وہ سنگا پور کے طرز پر لندن کو بنیاد بنا کر سپر پاور معاشی مرکز بن سکتا ہے۔ اور فی الحال یورپین یونین اسے ایسا کرنے سے روک رہا ہے۔
بریگزٹ کی مہم بورس جانسن اور نائجیل فراج نے شروع کی۔ ان دونوں نے برطانوی عوام کے اندر ایمیگریشن سے متعلق خوف بھر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کھلی سرحدوں کے سبب بڑی تعداد میں سیریا اور دیگر ممالک سے مہاجرین یورپ آئیں گے اور سب سے بہتر جگہ میں رہنے کو ترجیح دیں گے۔
اس طرح دوسرے لوگ برطانیہ میں آکر مقامی آبادی کے لیے نوکریوں سے متعلق مشکلات پیدا کر دیں گے۔ اس کے علاوہ 'اسلامو فوبیا' کا سہارا لیکر بھی لوگوں کو خوف میں مبتلا کیا گیا۔
ساتھ ہی اُس دور میں ترکی کے یورپین یونین کا حصہ بننے کے بارے میں بات چیت چل رہی تھی، اس کو بھی ایک مدعا بنایا گیا، اور ترکی کے بارے میں افواہ پھیلائی گئی کہ 76 ملین ترکی کی آبادی ہے، ان کے برطانیہ آنے سے نہ صرف برطانیہ کی ڈیموگرافی بدل جائے گی، بلکہ وہ اپنی تہذیب و ثقافت اور مذہب کے ساتھ یہاں رہیں گے، جس سے برطانیہ میں ایک قسم کا ماحول خراب ہوگا۔
بورس جانسن اور نائجیل فراج نے ملکر منفی مہم کو آگ کی طرح پورے برطانیہ میں کامیابی کے ساتھ پھیلا دیا، جس سے لوگوں میں واقعی میں خوف پیدا ہو گیا، اور سنہ 2016 کے ریفرنڈم میں لوگوں نے یورپین یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹنگ کر دی۔
یونین کے ساتھ بنے رہنے والے کیا کہتے ہیں؟
پہلی وجہ: برطانیہ کی زیادہ تر تجارت یورپین یونین کے ساتھ ہے۔ اور برطانیہ کو ای یو کی شکل میں بغیر کسی ٹیکس اور ٹیرف کے ایک بڑی مارکیٹ دستیاب ہے۔ اس طرح ای یو کا حصہ ہونے کے سبب برطانیہ کی تجارت میں کافی آسانی ہوتی ہے۔
دوسری وجہ: جس ایمیگریشن کو دیگر افراد نے منفی بنا کر پیش کیا، اسے یہ لوگ مثبت مان رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آنے والے لوگ نئی عمر کے ہوتے ہیں، اور بڑی تعداد میں لوگوں کے آنے کی وجہ سے چیزیں سستی ہو جاتی ہیں۔ عموما ترقی یافتہ سماج میں مین فورس کا ملنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن لوگوں کے آنے کے سب پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے، اور معاشی ترقی ملتی ہے۔
تیسری وجہ: 28 ممالک کے اتحادی ہونے کے سبب ان میں سے ہر ملک کو ایک طرح کی حفاظت کا احساس ہوتا ہے۔ یعنی اتحاد کی صورت میں کسی طرح کا بیرونی حملہ ممکن نہیں رہتا۔
چوتھی وجہ: ایک بڑے بلاک کے طور پر دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی بھاو تاو کیا جا سکتا ہے۔ مثلا ریاستہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ ایک 'فری ٹریڈ زون' بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ یورپین یونین ایک بڑا بلاک ہونے کی وجہ سے اس میں اہم کردار ادا کرے گا، اور یورپین یونین میں ہونے کے سبب برطانیہ کو بھی اس کا بڑے پیمانے پر فائدہ ہو گا۔
پانچویں وجہ: لوگوں کا ماننا ہے کہ ایک سے دوسری جگہ آزادانہ طور پر سامان کو لے جانے میں کافی سہولت ہے۔ ایک جیسے قوانین ہونے کے سبب کہیں بھی کسی طرح کی رکاوٹ نہیں ہوتی ہے۔ اس سے تجارت میں کافی ترقی ہوتی ہے۔
بڑے رہنما جو ایگزٹ کے حق میں ہیں۔ بڑے رہنما جو ایگزٹ کے حق میں ہیں۔
نائیجل فراج: (یوکِپ) یونائیٹیڈ کنگڈم انڈپینڈینٹ پارٹی کے رہنما
بورس جانسن: کنزرویٹیو پارٹی کے رہنما اور موجودہ برطانوی وزیر اعظم۔
بریگزٹ کے حامیوں کی تصویریں بڑے رہنما جو ایگزٹ کے حق میں نہیں ہیں۔ڈیوڈ کیمرون: کنزرویٹو پارٹی کے رہنما اور سابق برطانوی وزیر اعظم۔ٹریزا مے: کنزرویٹو پارٹی کی رہنما اور سابق برطانوی وزیر اعظم۔جرمی کوربن: لیبر پارٹی اور برطانوی پارلیمنٹ کے حزب اختلاف کے رہنما۔
بڑے رہنما جو ایگزٹ کے حق میں نہیں ہیں۔ آرٹیکل 50 لِسبِن ٹریٹی
لسبن ٹریٹی کیا ہے؟
در اصل یورپین یونین کے ڈھانچے کو قائم کرنے والی کچھ ٹریٹیز میں سے ایک 'لسبن ٹریٹی' بھی ہے۔ اسی لسبن ٹریٹی کے آرٹیکل 50 کے تحت بریگزٹ کی کارروائی کا عمل شروع کیا گیا ہے۔
یورپین یونین سے باہر نکلنے کے لیے دو برس کا نوٹس پیریڈ ضروری ہوتا ہے۔ یہ نوٹس پیریڈ اُسی روز سے نافذ ہو گا، جس روز یوکے کی پارلیمنٹ بریگزٹ کو منظوری دے دے، اور 27 مارچ سنہ 2017 میں برطانوی پارلیمنٹ نے اس کو منظوری دے دی ہے۔
گویا دو برس کے نوٹس پیریڈ مکمل ہونے کے باوجود اب تک برطانیہ اپنے ایگزٹ کی کارروائی اور اس سے متعلق ٹرم اینڈ کنڈیشنز طے نہیں کر سکا ہے۔
سنہ 2009 میں لسبن ٹریٹی کا آرٹیکل 50 بنایا گیا تھا، لیکن اب تک کسی بھی ملک نے یونین سے علیحدگی اختیار نہیں کی ہے، اسی لیے اس ایگزٹ کے عمل کو مکمل کرنے سے متعلق بہت زیادہ وضاحت نہیں ہے۔
بریگزٹ اتنا بڑا معاملہ کیوں بن گیا ؟
در اصل 'یونائٹیڈ کنگڈم' چار ممالک کا مجموعہ ہے: اس میں اسکاٹ لینڈ، شمالی آئرلینڈ، ویلز اور انگلینڈ شامل ہیں۔
بریگزٹ کی صورت میں کیا یہ چاروں ممالک ایک ساتھ رہ سکیں گے، یا پھر اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئر لینڈ یوکے سے بھی علیحدگی اختیار کر لیں گے، یہ ایک انتہائی پیچیدہ معاملہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بریگزٹ برطانیہ کے مستقبل کے لیے کسی حادثے سے کم نہیں کہا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ہارڈ بریگزٹ ہونے کی صورت میں آئرلینڈ اور شمالی آئرلینڈ کے درمیان سرحدی نظام قائم ہو جائے گا۔ کیوں کہ شمالی آئر لینڈ یوکے کا حصہ ہے اور آئرلینڈ یورپین یونین کا حصہ ہے۔ ایسے میں دونوں ممالک کے لوگ ایک دوسرے ملک میں بغیر پاسپورٹ اور ویزے کے نہیں جا سکیں گے۔ اس سے شمالی آئرلینڈ یوکے سے الگ ہو سکتا ہے۔
اسی کے پیش نظر بورس جونسن نے کہا ہے کہ وہ زیادہ تو کچھ نہیں کر سکتے، تاہم آئرلینڈ کے ساتھ ایک معاہدہ کرنے کی کوشش کریں گے، تاکہ دونوں ممالک کی سرحدیں ایک دوسرے کے لیے کھلی رہیں۔
یورپین ایکنامک ایریا کیا ہے؟
بریگزٹ ہونےکی صورت میں متعدد سیاسی رہنماوں نے برطانیہ کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اگر یونین سے باہر نکلنا ہی ہے تو، کم از کم 'یورپین ایکنامک ایریا' میں شامل رہنا چاہیے۔ کچھ ممالک جیسے ناروے اور سویٹزرلینڈ یونین کا حصہ نہیں ہیں، لیکن وہ یورپین ایکنامک ایریا کا حصہ ہیں۔
اس کے ذریعہ وہ یورپی یونین ممالک کا حصہ نہ رہتے ہوئے بھی لوگ ایک دوسرے ملک میں بغیر کسی ویزے کے آمد و رفت کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی بغیر ٹیرف کے باہمی تجارت بھی کر سکتے ہیں۔
اس طرح یہ ایک خصوصی درجہ ہے، جس سے ممالک پہلے یورپین ایکنامک ایریا کا حصہ بنتے ہیں، بعد ازاں وہ یورپین یونین ممالک میں شامل ہو جاتے ہیں۔
بریگزٹ سے متلعق ماہرین کیا کہتے ہیں؟
بریگزٹ کے بعد برطانیہ کے مستقبل کے بارے میں فی الحال کچھ بھی کہنا جلد بازی ہو گی، تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ بریگزٹ سے برطانیہ کو فائدہ کم نقصان زیادہ ہوگا۔