اگر اسرائیل مقبوضہ ویسٹ بینک کے کچھ حصوں کو ضم کرتا ہے تو مستقبل میں ویسٹ بینک کے سماجی اور معاشرتی نتائج کیسے ہوں گے، اس سے متعلق کچھ بھی کہنا مشکل ہے، لیکن تقریبا 70 برس قبل مشرقی یروشلم کے ضم کے بعد یروشلم میں رہنے والے مسلم باشندوں کی باتیں یقینا تشویشناک صورتحال کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
یروشلم کے نزدیکی علاقے سلوان میں رہنے والے ایک فلسطینی مسلمان جواد صیام نے بتایا کہ 'ایک فلسطینی کے طور پر اسرائیلی عدالتوں میں جانا بہت مشکل ہے، کیونکہ یہاں یکطرفہ نظام ہے۔ خواہ عدالت ہو یا جج یا پھر حکومت، سب ایک جیسے ہیں۔ اور سیٹلمنٹ ایسوسی ایشن بالخصوص ایلعاد بہت زیادہ حاوی ہے۔ ایلعاد کے مطابق یہ یہودیوں کا شہر ہے، جس کا مطلب یہاں رہنے والے ہم فلسطینی لوگ مجرم ہیں'۔
خیال رہے کہ اسرائیلی رہنما دنیا بھر میں یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یروشلم بقائے باہمی کا ایک نمونہ ہے، جہاں یہودی اکثریت میں اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں، لیکن فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ انہیں یہاں بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جواد صیام کا مزید کہنا ہے کہ 'دنیا سمجھتی ہے کہ یہاں کی زندگی بہت شاندار ہے، کیوں کہ فلسطینی اور اسرائیلی ایک ساتھ رہتے ہیں، لیکن یہاں ایک ساتھ رہنے والے عام اسرائیلی کے علاوہ ایسے آباد کاروں کے بارے میں بات کرتے ہیں گے، جن کا ماننا ہے کہ یہاں یہودیوں کی اکثریت ہونی چاہیے۔ یہ آبادکار آپ کا پڑوسی نہیں بلکہ ایک کے بعد ایک گھر بسانا چاہتا ہے'۔
یہاں رہنے والے بیشتر فلسطینی مسلمانوں کی شہریت کو خطرہ ہے، تو کچھ لوگوں کو ان کے گھر سے جبرا بے دخل کیے جانے کا بھی خوف ہے، کیوں کہ انسانی حقوق کی کچھ جماعتوں کا ماننا ہے کہ حالیہ دہائیوں میں اسرائیلی حکام نے یروشلم کے حساس علاقوں میں مکانات پر قبضہ کر لیا اور قانون کا غلط استعمال کر کے فلسطینی باشندوں کو بے دخل کرنے کے ساتھ ہی آباد کاروں کو یہاں داخلے کی راہ ہموار کر دی ہے۔