عراق میں کم از کم دو امریکی فضائی اڈوں ایربل اور عین الاسد نامی علاقوں کو ایرانی پاسداران انقلاب کی افواج نے نشانہ بنایا ہے۔
اطلاعات کے مطابق ایک درجن سے زیادہ بیلسٹک میزائلز کے ذریعے عراق میں موجود امریکی فورسز کے دو فوجی اڈوں پر لگاتار حملے کئے گئے۔
عین الاسد ایئربیس کا استعمال پہلی بار امریکی فوج نے 2003 میں کیا تھا۔ جب امریکہ کی قیادت میں صدام حسین پر حملے کی کوشش کی گئی تھی۔ جس کے بعد عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے گروپ کے خلاف لڑائی کے دوران امریکی فوجیوں کو وہاں تعینات کیا گیا تھا۔ اس میں تقریبا 1500 امریکی اور اتحادی افواج شامل ہوئی تھیں۔
پینٹاگون ذرائع نے کہا ہے کہ 'ایران نے عراق میں امریکی فوجی اور اتحادی افواج کے خلاف ایک درجن سے زیادہ بیلسٹک میزائل داغے ہیں۔ جن میں الاسد اور ایربل کے کم از کم دو ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے'۔
تاہم ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق بدھ (آٹھ جنوری 2019) کے اوائل میں ایران کے اسلامی انقلابی گارڈ کور (آئی آر جی سی) کے ذریعہ 35 سے زیادہ راکٹ فائر کیے گئے'۔
حملوں کے بعد ایک سابق ایرانی جوہری مذاکرات کار نے اسلامی جمہوریہ کے جھنڈے کی ایک تصویر ٹویٹ کی۔ ٹرمپ نے بھی بغداد میں ڈرون حملے میں جمعہ کے روز سلیمانی اور دیگر افراد کے قتل کے بعد امریکی پرچم پوسٹ کیا تھا۔
ایران کی جانب سے دو فوجی ٹھکانوں پر بیلسٹک میزائلوں کا دوسرا سلسلہ وار حملہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو متنبہ کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
عالمی سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ایران کی اس کاررورائی کو ایرانی پاسداران انقلاب کے جنرل قاسم سلیمانی کے امریکی قتل کا بدلہ بھی کہا جارہا ہے۔
مزید پڑھیں : ایران نے امریکی فوجی کمانڈ سے متعلق ہنگامی بل منظور کیا
وہائٹ ہاؤس کے پریس سکریٹری اسٹیفنی گریشم نے کہا کہ 'امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر حملے کی کڑی نگرانی کر رہے ہیں اور صورتحال کے حوالے سے قومی سلامتی کی ٹیم سے مشاورت کر رہے ہیں'۔
دریں اثنا نائب صدر مائک پینس کو عراق میں امریکی فوجی اور اتحادی فوج کی میزبانی والے ٹھکانوں پر ایران کے حملوں کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا۔
امریکی پریس سکریٹری مائیک پینس نے کہا کہ 'عراق میں امریکی فوجی اور اتحادی افواج کی میزبانی کرنے والے ٹھکانوں پر ایران کے حملوں کے بعد پوری قومی سلامتی کی ٹیم سے مستقل رابطے میں ہیں اور کانگریس کی قیادت سے مسلسل ملاقاتیں جاری ہیں'۔
مزید پڑھیں : امریکہ نے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کو ویزہ نہیں دیا
امریکی ایوان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے ٹویٹ کیا کہ 'وہ عراق میں امریکی فوجیوں کو نشانہ بنانے والے بم دھماکوں کے بعد صورتحال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں'۔
پیلوسی نے ٹویٹ کیا 'عراق میں امریکی فوجیوں کو نشانہ بنائے جانے والے بم دھماکوں کے بعد صورتحال کی قریب سے نگرانی کی جارہی ہے۔ ہمیں انتظامیہ کی جانب سے غیرضروری اشتعال انگیزی نہیں کرنا ہے اور ایران سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ وہ اپنا تشدد بند کرے۔ امریکہ اور دنیا مزید جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتے ہیں'۔
یاد رہے کہ پانچ جنوری کو عراق کی پارلیمان نے امریکی فوج کے ملک سے انخلا سے متعلق ایک قرار داد منظور کی تھی۔ جبکہ امریکی صدر نے ایسا کرنے پر عراق پر سخت پابندی عائد کرنے کا اشارہ دیا تھا۔
مزید پڑھیں : ایرانی انقلاب کے رہنما کا بھارت سے 'کنکشن' ہے
حالیہ برسوں میں سلیمانی کی ہلاکت اور ایران کے میزائل حملوں کا پہلا موقع ہے، جب واشنگٹن اور تہران نے خطے میں دھمکیوں کے بجائے ایک دوسرے پر براہ راست حملہ کیا۔ ان کاروائیوں نے دونوں ممالک کے مابین کھلے عام تنازعہ پھیلنے کے امکانات کو بڑھایا ہے۔ ایران کے 1979 کے اسلامی انقلاب کے فورا بعد ہی ایران۔ امریکہ کو سخت دشمنوں کی حیثیت سے دیکھاجاتا ہے۔