بیرونی ممالک میں مقیم ایک کروڑ اسی لاکھ بھارتی شہریوں (انڈین دیاسپورہ) کو سب سے بڑا طبقہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یعنی اتنی بڑی تعداد میں کسی دوسرے ملک کے شہری بیرونی ممالک میں مقیم نہیں ہیں۔ دُنیا بھر کے ممالک میں موجود ان بھارتی شہریوں میں 'نان ریزیڈنٹ انڈین (این آر اوز) اور اوور سیز سٹیزنز آف انڈیا' بھی شامل ہیں۔ میزبان ممالک میں اِن بھارتی شہریوں کے سالہا سال کے کنٹریبیوشن اور اُن کی محنت، نظم و ضبط اور لگن جیسی خوبیوں کی وجہ سے انہیں وسیع پیمانے پر سراہا جاتا ہے۔ شمالی امریکہ سے مشرق وسطیٰ تک ہر جگہ بھارت کے لوگ اعلیٰ عہدوں سے لے کر نچلے درجے کے کام کے لئے ایک بہترین ورک فورس مانے جاتے ہیں۔
ایک تخمینے کے مطابق بھارتی شہریوں کی سب سے زیادہ تعداد متحدہ عرب امارات، امریکہ اور سعودی عرب میں ہے ۔ ان تینوں ممالک میں بالترتیب 3.4 ملین، 2.6 ملین اور 2.4 ملین بھارتی شہری مقیم ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے حالیہ دورہ بھارت کے موقعے پر امریکہ میں چار ملین بھارتی نژاد شہریوں کے عظیم کنٹری بیوشن کا اعتراف کیا۔
خلیجی ممالک کے تمام شعبوں میں بھارتی شہریوں کو مہارت اور بھروسے کے حوالے سے ایک پیشہ ور افرادی قوت مانا جاتا ہے اورکام کیلئے انہیں ترجیح دی جاتی ہے۔آسٹریلیا کی حکومت نے اپنی 'انڈیا اکونامی اسٹریٹجی 2035 کے حوالے سے بھارتی نژاد عوام کو آسٹریلیا کا ایک قومی معاشی سرمایہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان سے استفادہ حاصل کیا جانا چاہیے۔
آسٹریلیائی حکومت نے مزید کہا ہے کہ بھارتی نژاد شہریوں میں تجارتی جوش و جذبہ اور ان میں کام کرنے کی ہمت اور انڈین مارکیٹ کی وسعت کے پیش نظر مستقبل میں آسٹریلیا کے تجارتی شعبے کو فائدہ پہنچے گا۔ان بھارتی شہریوں کی اقتصادی اور سیاسی اہمیت کے نتیجے میں مذکورہ ممالک میں بھارت کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے۔
آج بھارتی شہری اعلیٰ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سربراہی کررہے ہیں اور اس کے نتیجے میں بھارت کا سر بلند ہورہا ہے۔اس کی وجہ سے ہمارے ملک میں سرمایہ کاری بھی ہورہی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور معاشی شعبوں میں سرمایہ کاری کا بڑھتا ہوا رجحان در اصل اِن ہی بھارتی شہریوں کی وجہ سے ہے۔اس کے علاوہ سالانہ 60 بلین ڈالر کا ترسیل زر کی وجہ سے ہماری اقتصادیات کو مضبوطی حاصل ہورہی ہے کیونکہ اس طرح سے ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہورہا ہے۔
تاہم اس معاملے کا ایک پریشان کن صورتحال بھی دیکھنے کو مل رہا ہے وہ یہ کہ بعض میزبان ممالک میں کئی بار بھارتی شہریوں کے ساتھ استحصال کے معاملے بھی سامنے آرہے ہیں جبکہ خلیجی ممالک سے مزدور طبقہ کو نکالا جارہا ہے۔ حالانکہ عمومی طور پر یہ سب کچھ اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ ہمارے شہری قوائد و ضوبط سے لاعلم اور اپنے حقوق سے بے خبر ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ بیرونی ممالک میں کام کے لئے افرادی قوت فراہم کرنے والے بے ایمان ایجنٹوں اورمتعلقہ مالکان کے غیر ہمدردانہ رویہ کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔کبھی کبھار ہمارے شہریوں کو یہ تاثر بھی دیا جاتا ہے کہ بھکاریوں کوانتخاب کرنے کا حق نہیں ہوتا ہے۔ کبھی کبھار اس وجہ سے بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں کہ جب خوبصورت خوابوں کے اسیرن نوجوان اپنے خوابوں کی تعبیر کے لئے بغیر کسی جانکاری کے مغربی ممالک میں کام کرنے کے لئے چلے جاتے ہیں۔
قانونی لوازمات پورے نہ ہونے کی وجہ سے یہ وہاں غیر قانونی تارکین وطن کے زمرے میں آجاتے ہیں اور اُن پر اُفتاد نازل ہونا شروع ہوجاتی ہے۔خلیجی ممالک میں ورک پر مٹس اور اقامہ عمومی طور پر یکطرفہ قوائد و شرائط پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان کے پاسپورٹس عمومی طور پر مالکان ( کفیل) اپنے پاس رکھتے ہیں، جو کہ انڈین پاسپورٹ ضوابط کی رو سے غیر قانونی ہے۔لیکن اس کے باوجود بیرونی ممالک میں کام کرنے والوں کو اپنے آدھار کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنز کو اپنے پاس محفوظ رکھنا چاہیے، تاکہ کسی مصیبت کی صورت میں بھارتی سفارتخانے اُن کی مدد کرسکیں۔
درمیانہ دار اور ایجنٹس عمومی طور پر بیرونی ممالک جانے والوں کو پوری جانکاری فراہم نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ زیادہ تر کام کے متلاشی ان مجبور لوگوں کو خوبصورت جھانسے ہی دیتے ہیں۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ بیرونی ممالک جانے والے لوگ پہلے ہدایات اور جانکاری حاصل کرنے کے لئے سرکاری ذرائع سے رجوع کریں۔ انہیں اپنے سفری دستاویزات کی نقول اپنے گھر میں بھی رکھنی چاہیں۔یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کام فراہم کرنے والی متعلقہ ایجنسیز کے بارے میں پہلے اپنے ملک میں ہی پوری واقفیت حاصل کریں اور جانے سے پہلے عربی کے کچھ جملے اور الفاظ بھی سیکھ لیں۔
حالانکہ حکومتی سطح پر بھی بیرونی ممالک میں روزگار کے لئے جانے والوں کی مدد کے لئے اور ان کا تحفظ یقینی بنانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ ان کے پاسپورٹ پر 'امیگریشن کلیرینس ریکارڈ' کی مہر ثبت کی جاتی، جوخارجی امور کی وزارت سے منسلک جنرل آف امیگرینٹس کی جانب سے کچھ چھان بین کے بعد ڈالی جاتی ہے۔