ایک ایسے وقت میں جب ساری دُنیا کووِڈ 19کے مسئلے سے جوجھ رہی ہے، وہیں جکارتا میں بھارت مخالف احتجاج کی شدت میں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔دونوں ملکوں بھارت اور انڈونیشیا کو اُمید ہے کہ وہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پیدا شدہ اختلافات کو دُور کرنے اور دوطرفہ تعلقات میں بہتری لانے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ جکارتا میں تعینات بھارتی سفیر کمار راوت کو دوہفتے قبل انڈونیشیاکی وزارت خارجہ نے طلب کیا گیا تھا۔ یہاں انہیں دہلی فسادات پر انڈونیشیا سرکارکی تشویش سے آگاہ کیا گیا۔ دہلی فسادات میں کم ازکم پچاس افراد مارے گئے، جن میں کئی مسلمان شامل تھے۔
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران جکارتا میں بھارتی سفارتخانے اور میدن میں بھارتی کونصل خانے کے باہر احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ۔یہ مظاہرے انڈونیشیا کی ایف پی آئی، جی این پی ایف اور پی اے 212جیسی سخت گیر مسلم جماعتوں کے اہتمام سے کئے گئے ۔ اس سے قبل ان تینوں تنظیموں کے سربراہوں کا دستخط شدہ مشترکہ بیان بھی سامنے آیا تھا۔ اپنے اس مشترکہ بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ ' ہم بھارت سرکار سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ شہریت ایکٹ کو منسوخ کرے، جس کو ہندو انتہا پسند گروپ بھارتی مسلمانوں کے خلاف استعمال کررہے ہیں'۔
تاہم انڈونیشیا کے سرکاری ذرائع نے واضح کردیا ہے کہ بھارتی سفیروں کو محض یہ بتانے کے لئے طلب کیا گیا تھا کہ بھارت اپنے اندرونی مسائل کی وجہ سے پیدا شدہ تناؤ کو دور کرنے کے لئے اقدامات کرے ۔ انڈو نیشیا کے ایک افسر نے بتایا کہ 'سیول سوسائٹی کی تنظیموں اور دیگر کئی جماعتوں کا پیغام ( حکومت ِ ہند ) تک پہنچا دیا گیا ۔ یہاں لوگوں کو تشویش لاحق ہے، لیکن انڈونیشیا کی حکومت کو یقین ہے کہ دونوں ممالک اس حوالے سے پیدا شدہ اختلافات کو دور کر پائیں گے، کیونکہ بہر حال دونوں جمہوری ملک ہیں'۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کے خلاف بھارت بھر میں جاری احتجاج کی وجہ سے کئی جگہوں پر تشویش بڑھ رہی ہے۔ دہلی کے فسادات میں محمد زبیر کا چہرہ ایک علامت بن گیا ہے ۔ اس مسلم شخص کو دائیں بازو کے قوم پرستوں کے ایک ہجوم نے اس لئے حملے کا نشانہ بنایا تھا کیونکہ اس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی اور اس کے سر پر ٹوپی تھی۔ اس صورتحال پر انڈونیشیا میں صدائے احتجاج کو قابو کرنے کے لئے ہی وہاں کی سرکار سفارتی ردعمل کا اظہار کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ جمعہ کے احتجاج کے بعد جکارتا میں غم وغصہ ٹھنڈا پڑگیا ہے۔
گزشتہ جمعہ کو انڈونیشیا کی سرکار کو بھارتی سفارتخانے کے باہر گیارہ سو پولیس اہلکاروں کو تعینات کرنا پڑا تھا اور احتجاج کے پیش نظر رکاوٹیں ڈال کا ٹریفک کا رخ موڑنا پڑا تھا۔ حالانکہ جکارتا میں غیر ملکی سفارتخانوں کی حفاظت کے لئے اس طرح کے سیکورٹی انتظامات خال خال ہی کرنے پڑتے ہیں۔ ماضی میں فلسطین کے مسئلے پر احتجاج کے دوران انڈونیشیا کی سرکار کو امریکی سفارتخانوں کو اس طرح کی سیکورٹی فراہم کرنے پڑی تھی۔
اس بات کی بھی اُمید ہے کہ نئی دہلی، انڈونیشیا میں بھارتی اقلیت کے حوالے سے پیدا شدہ تشویش کو قابو کرنے کے لئے جارتکا میں ایک بااثر تنظیم انڈونیشیا مسلم کونسل( ایم یو آئی ) کو اعتماد میں لے گئی ۔ انڈونیشیا مسلم کونسل نے بھارت کے خلاف احتجاج تو نہیں کیا لیکن اس نے اپنے ایک حالیہ بیان میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو بھارت بھیجے تاکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت بھارت کی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔
انڈونیشیا مسلم کونسل نے اپنے بیان میں بھارت کے شہریت ترمیمی ایکٹ کو امتیازی قرار د یا ہے اور ساتھ ہی بھارت سرکار پر زور دیا ہے کہ جموں کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے استصواب رائے کے لئے اقوم متحدہ کی سلامتی کونسل کے قراردادوں پر عمل کرے ۔ اس تنظیم نے انڈونیشیا کی سرکار سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ اگر بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ایسی صورتحال برقرار رہی تو وہ نئی دہلی کے ساتھ اپنے روابط ختم کرے۔
حالانکہ پچھلے چند برسوں کے دوران انڈونیشیا نے اسلامک ممالک کی تنظیم ( او آئی سی ) میں کشمیر کے معاملے پر بھارت کے تئیں حساس اور ہمدردانہ رویہ کا مظاہرہ کیا ہے۔ انڈونیشیا نے اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل میں اظہر مسعود کو دہشت گرد قرارد ینے کے حوالے سے بھی بھارت کی حمایت کی تھی ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت میں جاری احتجاج کے حوالے سے اب تک انڈونیشیا کا ردعمل محتاط ہے۔
جکارتا میں تعینات بھارتی سفیر اس ہفتے انڈونیشیا کے نائب صدر سے بھی ملاقات کریں گے، جو انڈونیشیا مسلم کونسل کے ایک رکن بھی ہیں۔ بھارتی سفیر اس ملاقات میں اُن کے ساتھ حساس معاملات پر بات کریں گے ۔بھارت اور انڈونیشیا نے بین المذہبی مذاکرات اکتوبر 2018 میں شروع کئے تھے۔طے یہ پایا گیا تھا کہ اس سلسلے میں ہر سال دونوں ممالک کے درمیان مذاکراتی ادوار ہونگے ۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ذرائع کو اُمید ہے کہ اس سال یہ مذاکرات ہونگے اوریہ دوطرفہ تعلقات میں بہتری لانے میں اہم رول ادا کریں گے۔ تاہم اس وقت جبکہ کورونا وائرس نے عالمی سطح پر تباہی مچادی ہے، بھارت اور انڈونیشیا کے درمیان دوطرفہ تعلقات کا میکانزم معطل ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات سفارتی سطح پر ہیں۔ جبکہ سیاسی ، سلامتی اور انسانی حقوق کے امور سے متعلق انڈونیشیا کے کارڈی نیٹنگ منسٹر اور بھارتی قومی سلامتی صلاح کار اجیت ڈول کے درمیان مجوزہ مذاکرات بھی معطل ہیں۔ فی الوقت دونوں ملکوں کے درمیان سفارتخانوں کے ذریعے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے، 'انڈونیشیا کی خارجہ پالیسی کا ہدف بھارت کے ساتھ رشتے مضبوط بنانا ہے اور اس ضمن میں مسلسل کوششیں کی بھی کی جارہی ہیں '۔
درایں اثنا ذرائع نے بھارتی میڈیا کی ان رپورٹوں کو مسترد کردیا ہے جن کے مطابق انڈونیشیا کی ایک این جی او 'اکسی کارپیٹ ٹنگاپ 'نے دہلی فسادات کے لئے فنڈنگ کی تھی۔یہ میڈیا رپورٹس انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے سامنے لائی گئی تھیں۔ مذکورہ این جی اور نے اس کی تردید بھی کی ہے۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ کسی سرکاری ذریعہ نے ان الزامات کی توثیق نہیں کی ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی شواہد موجود ہیں۔