بھارت اور چین کی افواج کے مابین رواں برس اپریل۔مئی سے کشیدگی جاری ہے، اس تنازع کو ختم کرنے کے لئے بات چیت کے تمام ادوار کے ناکامی کے بعد ماسکو میں جمعرات کی شام ایس سی او کی میٹنگ ہوئی، اس میٹنگ میں بھارت اور چین کے وزراء خارجہ کے درمیان انتہائی اہم ملاقات کو مبالغہ آمیز طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔
دوسری چیزوں کے علاوہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دو ایشیائی تجربہ کاروں کے مابین مسلح تصادم کے بڑھتے ہوئے خدشات کو کم کیا جاسکتا ہے، جس کا واضح طور پر عالمی اثر پڑے گا، ساتھ ہی جنگ کے روشن بادلوں کو منتشر کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
اب اعلی سیاسی قیادت کی سطح پر گفتگو صرف ایک جگہ رہ گئی ہے، ای ٹی وی بھارت نے 20 اگست کو لکھا تھا کہ یہ یقین کرنا ہے کہ مودی۔ شی جنگپنگ تنترکے علاوہ اعلی سطح پر تمام طریقہ کار اپنائے اور جانچ لیا گیا ہے اور یہ سب ناکام ہوچکے ہیں۔
درحقیقت وہ معاملات جو واقعی بھارت چین کی لاعلاج نوعیت کے ہیں، انہیں دیکھ کر فوجی سطح یا سفارتی مداخلت کے ذریعہ حل نہیں کیا جاسکتا، یہ مسئلہ بھی نوآبادیاتی ورثے کی پیداوار ہے، دیرینہ مسئلہ کو حل کرنے کے لئے صرف دونوں ممالک کے اعلی ترین دفاتر کے پاس ضروری وسائل اور مینڈیٹ موجود ہیں۔
اس لئے مشترکہ بیان کے پہلے نکتہ میں یہ کہا گیا ہے کہ دونوں فریقین کو دونوں ممالک کے رہنماؤں کے ذریعہ کی جانے والی اہم اتفاق رائے کی پاسداری کرنی چاہئے۔
دوسری بات یہ ہے کہ روس کی جانب سے سیاسی اسٹریٹجک کا دعویٰ بالکل واضح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے ممالک کے دائرے میں روس کی ساکھ بہت بڑھ چکی ہے۔
ایس سی او کے موقع پر بھارت اور چین کے وزیر دفاع اور وزیر خارجہ گذشتہ چند روز میں ملاقات کرتے ہیں اور اس سے دونوں ممالک کے مابین جمی برف بگھل سکتی ہے۔