بھارت۔چین سرحدی تنازعہ پر بات چیت کے لیے مقرر خصوصی نمائندوں کے درمیان 22 واں اجلاس تاج محل کے شہر آگرہ میں ہونے جارہا ہے۔ یہ توقع کرنا غلط نہیں ہوگا کہ 21 دسمبر کو دونوں خصوصی نمائندوں بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال اور چینی وزیر خارجہ اور ریاستی مشیر وانگ یی کے مابین ہونے والی بات چیت ، زمینی حقیقت کی بنیاد پر سرحدی تنازعہ کے حل کے لئے اقدامات کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔
چین اور بھارت کے نمائندہ خصوصی کے مابین گذشتہ 21 مذاکرات میں ہونے والی گفتگو سے یہ واضح ہے کہ سرحدی تنازعہ کو حل کرنا بہت ہی مشکل عمل ہے۔ سنہ 2003 میں اٹل بہاری واجپائی اور ہوجن تاؤ کے مابین منعقدہ سربراہی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ سرحدی تنازعہ کے حل کے لیے خصوصی نمائندوں کی سطح پر بات چیت کی جائے گی۔ اس دور میں بات چیت کے دوران ہی یہ طے پایا تھا کہ تنازعہ کے حل کے لیے کس فریم ورک کے تحت کوشش کی جائے گی۔
سنہ 2005 میں ڈاکٹر منموہن سنگھ اور وین جیابائو کے مابین ہوئی ملاقات میں سیاسی پیرامیٹرز اور رہنما اصول طے کیے گئے تھے۔ جس کے تحت یہ قبول کیا گیا کہ سرحدی تنازعہ کو حل کرنے کے لیے جغرافیائی خصوصیات اور آبادی کے درمیان تنازعات کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔
اس دوران دونوں ممالک کے مابین ایک غیر رسمی معاہدہ یہ بھی ہوا تھا کہ باہمی معاہدے کے ذریعہ لائن آف ائکچیول کنٹرول (ایل اے سی) کا تعین کیا جائے گا، لیکن جلد ہی چین نے اس معاہدے سے دستبرداری اختیار کرلی۔ لائن آف ایکچول کنٹرول کے معاہدے پر عدم عمل آواری کی وجہ سے دونوں ممالک کی فوجوں کے مابین تصادم کے بہت سارے واقعات دیکھے گئے۔
سنہ 1962 میں ہوئی جنگ میں چین نے اکسائی چین کے 34 ہزار مربع کلومیٹر پر زبردستی قبضہ کرلیا۔ چین پورے اروناچل پردیش کو چھوٹے تبت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ چین ان معاہدوں کو قبول نہیں کرتا ہے جن پر برطانوی حکومت کے دوران ان علاقوں کے مقامی حکمرانوں کے ساتھ اتفاق کیا گیا تھا۔ چین کی 14 ممالک کے ساتھ سرحدیں مشترک ہیں اور ان میں سے بیشتر کے ساتھ اس کے سرحدی تنازعات ہیں۔
چین نے ماضی میں سابقہ کمیونسٹ سوویت یونین (یو ایس ایس آر۔ موجودہ روس) اور ویتنام کے ساتھ بھی جنگیں لڑی ہیں۔ اپنی معاشی اور فوجی طاقت کی بدولت چین نے بھارت اور بھوٹان کے سوا تقریبا ممالک کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعات کو طے کرلیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سارے سرحدی معاہدے چین کے مفادات کو فائدہ پہنچانے کے لئے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے ایک بڑے علاقے کو چین نے ہتھیا لیا ہے۔ چین کی معیشت کا سائز بھارت سے پانچ گنا زیادہ ہونے کے باوجود بھارت نے اپنے سرحدی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ جب بھارت نے ڈوکلم کے علاقے میں بھوٹان کے حق میں فوجی مداخلت کی تو چین نے بھارت کو جنگ کی دھمکی دی۔ چین کو اب یہ احساس ہوچکا ہے کہ محض فوجی طاقت اور معاشی طاقت کا مظاہرہ کرکے سرحد کے سوال پر بھارت کی سرکوبی کرنا ممکن نہیں ہے۔
بین الاقوامی سرحد اور لائن آف کنٹرول کے معاملے کے باوجود جو بھارت اور پاکستان کے مابین طے پایا گیا ہے ، وہاں ہر روز سرحد پار سے فائرنگ کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف لائن آف ایکچیول کنٹرول کے باوجود چین کے ساتھ معاہدہ طے نہیں ہوا ہے ، گذشتہ 57 سالوں کے دوران سرحد پر ایک ہی بار فائرنگ کی گئی۔ یہ ثبوت یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ یہ دونوں ممالک پر امن مذاکرات کے ذریعے اپنے تنازعات کو حل کرنا چاہتے ہیں۔
اس سرحدی تنازعہ کا تجارت اور ان کے درمیان دوسرے تعلقات پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا ہے۔ باہمی تجارت اب 80 بلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ تنازعات کے حل کے لیے بات چیت کا عمل طویل عرصے سے جاری ہے، جو اب بھی برقرار ہے۔