جی 20 میں بھارت کی رکنیت اور بھارت کا جی 8 میں مستقل طور پر مدعو ہونا عالمی معیشت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔
کینیڈا نے جی 8 کو بنانے میں اہم رول ادا کیا اور حیرت کی بات ہے کہ سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کی حکومت نے اس میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی لیکن جاپان نے اس کی حمایت کی جس سے بھارت کو بھی فائدہ ہوا۔
جامع علاقائی معاشی شراکت داری (آر سی ای پی) میں شمولیت اختیار کرنے میں جاپان کی مستقل مزاجی کی وجہ سے ہم آر سی ای پی سے باہر ہیں۔ حال ہی میں ٹورنٹو میں جی 8 انسٹی ٹیوٹ کے جان کرٹن نے اس بات پر روشنی ڈالی۔
وزیراعظم ٹروڈو کے سوانح نگار جان انگلش نے بھارت اور چین کے کردار کو اجاگر کیا۔
انہوں نے کہا تھا کہ بھارت اس وقت دلچسپی لے سکتا ہے جب اس کے معاشی خدشات کے بارے میں اعلی سطح پر بات ہو۔ اس اسٹریٹیجک پس منظر پر گوہاٹی میں اجلاس کا آغاز ہوگا۔
موجودہ مرحلے پر ہمیں جاپان کے ساتھ خاص اقتصادی مفادات وابستہ ہیں۔ بجائے اس کے کہ دفتر خارجہ غیر مساوی تجارت کا رونا روئے، ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے ساتھ خوراک اور خام مال کی درآمدات پر توجہ مرکوز کریں۔ جاپانی معیشت اصل میں وسائل کی کمی کا شکار ہے حالانکہ اقتصادی سطح اور ترقی میں اس کا ریکارڈ بہتر ہے۔
ہم جاپان کو چاول برآمد کرسکتے ہیں کیونکہ جاپان چاول درآمد کرنے والے بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ وہاں مقامی کسانوں کو فی کوئنٹل 30000 روپے سبسڈی دی جاتی ہے۔ جاپانی ایک قسم کا چپچپا چاول استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے سائنسدان اس قسم کا چاول آسانی سے کاشت کر سکتے ہیں۔ اگر ہم طویل مدتی معاہدہ کر سکیں تو کم از کم پانچ لاکھ ایکڑ اراضی کو اس کاشتکاری کے لیے مختص کیا جاسکتا ہے۔
وہ متوازن تجارت پر شائستگی سے لیکچر سنیں گے لیکن بزنس تجاویز کو ترجیح دیں گے۔ ایسے کئی اور منصوبے ممکن ہو سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ ہم نے پلاننگ کمیشن کو تو خیر باد کہہ دیا ہے لیکن جاپان میں ایسے ادارے اب بھی کام کر رہے ہیں۔
جاپانی اپنے کام کو موثر طریقے سے کم وقت میں ختم کرنے کے عادی ہیں اور یہ ہمارے لیے کافی مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔ ایسے وقت میں جب ہمارا ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے۔
ورلڈ بینک اور دیگر امدادی ایجنسیز، پروجیکٹ کی منظوری سے قبل وقتاً فوقتاً وقت لیتے ہیں۔ جاپان کے ساتھ نرمدا پالاننگ گروپ میں بطور وائس چیئر اور ایس ٹی پی میں بطور پاور منسٹر رہنے کے دوران میں نے تجربہ کیا کہ جاپان فیصلہ لینے میں سست روی سے کام نہیں لیتے ہیں۔ وہ کسی بھی منصوبے کا فیصلہ لیتے ہی ماہرین بھیجیں گے، جائزہ لیں گے اور جلد از جلد اسے نافذ کریں گے۔