پاکستان کی سیاسی صورتحال حالیہ دنوں میں بگڑتی جا رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے ان کی اپنی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے کچھ اراکین قومی اسمبلی کے حزب اختلاف سے ہاتھ ملانے کی خبر گردش کر رہی ہے۔No Confidence Motion in Pakistan
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے باغی اراکین قومی اسمبلی جلد ہی عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ووٹ بھی کرسکتے ہیں۔
پاکستانی میڈیا کے مطابق حکمران پارٹی پی ٹی آئی کے ناراض ارکان قومی اسمبلی دارالحکومت اسلام آباد میں سندھ ہاؤس میں رہائش پذیر ہیں۔
ان میں سے کئی ارکان قومی اسمبلی نے مختلف میڈیا اداروں کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے حکمراں جماعت سے تعلقات منقطع کر لیے ہیں اور وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر اگلے امیدوار نہیں ہوں گے۔
ایک حیرت انگیز انکشاف میں پی ٹی آئی کے رہنما رمیش کمار نے دعویٰ کیا کہ تین وفاقی وزراء سمیت ایوان کے 33 ارکان نے حکمراں جماعت کو چھوڑ دیا ہے اور وزیراعظم کو فوری طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے۔
سندھ ہاؤس میں پناہ لینے کی اپنی وجہ بتاتے ہوئے کمار نے کہا کہ انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے اس وقت تحفظ طلب کیا جب ان کی اہلیہ کو پارلیمنٹ لاج میں دھمکیاں دی گئیں۔
وہیں پی ٹی آئی کے باغی رکن راجہ ریاض نے انکشاف کیا کہ حکمران جماعت کے تقریبا 24 ناراض ایم این ایز سندھ ہاؤس میں رہائش پذیر ہیں اور وہ اپنے خلاف حکومتی کارروائی کے خوف سے ایسا کر رہے ہیں۔
دریں اثناء پی ٹی آئی رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ وہ اپوزیشن کے چند ارکان قومی اسمبلی سے رابطے میں ہیں جو ان کی حمایت کے لیے تیار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: No Confidence Motion Against Imran Khan: عمران خان کے خلاف تحرک عدم اعتماد جمع
وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے تجویز دی ہے کہ سندھ میں گورنر راج نافذ کیا جائے کیونکہ اپوزیشن منتخب حکومت کو ہٹانے کے لیے "سندھ ہاؤس میں کھلی ہارس ٹریڈنگ" میں ملوث ہے۔
پاکستانی اخبار ڈان کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے تقریباً 12 اراکین پارلیمنٹ کے سندھ ہاؤس میں ہونے اور ان کے اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ملانے کے امکانات کے پیش نظر وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کو 21 مارچ کو ایوان زیریں کا اجلاس بلانے کو کہا ہے۔ تاکہ پارٹی باغیوں کے خلاف کارروائی کرسکے۔
وزیر اطلاعات فواد چودھری نے بتایا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ وزیر اعظم نہیں اسپیکر کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ ہاؤس میں رکھے گئے اراکین نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے اس لیے پارٹی رہنما ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت کارروائی کر سکتے ہیں۔‘‘
آئین کے آرٹیکل 63 اے کسی بھی سیاسی جماعت کے رکن کے خلاف پارٹی کے خلاف ووٹ کرنے پر ڈسپلنری ایکشن لیا جا سکتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی 342 رکنی قومی اسمبلی میں عمران کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد پر 172 ارکان کی مہر درکار ہے، تب ہی یہ قرارداد منظور ہو سکتی ہے۔
عمران کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے پاس 156 نشستیں تھیں لیکن ایک رکن اسمبلی کے انتقال کے بعد یہ نشست خالی ہوئی ہے۔
عمران خان کی پارٹی کو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (سات نشستیں)، بلوچستان عوامی پارٹی (پانچ نشستیں)، پاکستان مسلم لیگ (قائد) (پانچ نشستیں)، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (تین نشستیں)، عوامی مسلم لیگ پاکستان (ایک نشست) جمہوری وطن پارٹی (ایک نشست) اور ایک آزاد رکن اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔
ان تمام پارٹیوں سے اتحاد کرنے کے بعد عمران خان کو 178 ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔
عمران خان کی حکومت بہت کم سیٹوں کے ساتھ برسراقتدار ہے اور اگر ان کے اتحادیوں اور آزاد جماعتوں کے کچھ ارکان اپوزیشن میں شامل ہو گئے تو عمران خان کی کرسی چھن سکتی ہے۔
حزب اختلاف کے پاس 162 سیٹیں ہیں اور انھیں عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے صرف دس سیٹوں کی ضرورت ہے، اگر اپوزیش تحریک عدم اعتماد میں دس ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر یہ تحریک کامیاب ہوجائے گی۔