پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے جنگ سے متاثر ملک افغانستان میں فوجی کارروائی کے لئے پاکستان کے اندر امریکی فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت کے امکان کو مسترد کردیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے انتقامی کارروائی کے طور پر پاکستان کو دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے واشنگٹن پوسٹ اخبار کے ایک مضمون میں کیا۔ قابل ذکر ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن اس ہفتے کے آخر میں وائٹ ہاؤس میں افغان رہنماؤں سے ملاقات کرنے جارہے ہیں۔
عمران خان نے پاکستان میں ایسے امریکی اڈوں پر بھی سوال کھڑے کئے۔ علاقے میں فوجی اڈے بنانے کے لئے امریکہ کی نگاہ پاکستان پر ہونے کے متعلق خبروں کے درمیان خان نے کہا کہ "ہم اس کے لئے پہلے ہی بھاری قیمت ادا کر چکے ہیں۔" ہم یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ کو پاکستان میں فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت نہ دینے کے پیچھے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان امریکی فوجی اڈے قائم کرنے پر راضی ہوجاتا ہے، جہاں سے افغانستان پر بم گرائے جائیں گے تو اس کا نتیجہ افغانستان میں گھریلو تشدد کا باعث بنے گا۔
ایسی صورتحال میں دہشت گرد ایک بار پھر انتقام لینے کے لئے پاکستان کو نشانہ بنائیں گے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ نائن الیون کے امریکہ میں حملے کے بعد پاکستان نے افغانستان میں کاروائیوں کو مربوط کرنے کے مقصد سے ملک میں فوجی اڈوں کے قیام کی منظوری دے دی تھی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سن 2008 سے اب تک سیکڑوں ڈرون حملے کیے جا چکے ہیں۔
عمران خان نے سوال کیا کہ امریکہ، جس کے پاس سب سے طاقتور فوجی مشینری ہے، افغانستان کے اندر رہنے کے بعد بھی وہ 20 سالوں میں جنگ نہیں جیت سکا، تو پھر وہ ہمارے ملک کے فوجی اڈوں سے یہ کیسے کر پائے گا؟ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور امریکہ کی دلچسپی سیاسی مفاہمت، استحکام، معاشی ترقی اور افغانستان میں دہشت گردوں کے لئے محفوظ ٹھکانے بننے سے روکنے میں ہے۔