گزشتہ ماہ طالبان کا افغانستان پر کنٹرول سنبھالنے کے بعد ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے کو دیے گئے پہلے انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں امن اور استحکام کو آگے بڑھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کی جائے اور ان کی خواتین کے حقوق اور جامع حکومت کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے۔
پاکستان کے وزیراعظم نے کہا کہ طالبان پورے افغانستان پر حکمرانی کر رہا ہے اور اگر وہ کسی طرح ایک جامع حکومت بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور ملک کے تمام فریقوں کو اکٹھا کر سکتے ہیں تو افغانستان میں 40 سال بعد امن ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ نہیں ہوپاتا ہے اور جس کے بارے میں ہم واقعی پریشان ہیں تو یہ ملک سب سے بڑے انسانی بحران، اور مہاجرین کا ایک بہت بڑے مسئلے کی طرف جا سکتا ہے۔
خان نے کہا 'یہ سوچنا غلط اور بے بنیاد ہے کہ باہر سے (غیر ملکی) کوئی افغان خواتین کو حقوق دے گا۔ افغان خواتین مضبوط ہیں، انہیں وقت دیں، انہیں ان کے حقوق ضرور ملیں گے۔'
عمران خان نے کہا کہ عالمی برادری کو طالبان کو انسانی حقوق کے لیے وقت دینا چاہیے لیکن امداد کے بغیر انتشار کا اندیشہ ہے۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد سے طالبان گروپ نے انسانی حقوق بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کے تحفظ کے وعدوں کے ساتھ ایک نئی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور صحافیوں کو اپنا کام جاری رکھنے کی اجازت دی ہے۔
تاہم طالبان کی سخت گیر عبوری حکومت سے خواتین کو خارج کر دیا گیا ہے۔ انہیں بعض علاقوں میں گھروں میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور مخلوط تعلیم پر بھی پابندی ہے۔