امریکہ کے نشریاتی ادارے سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ 9/11 کے بعد سے امریکا کا ساتھ دینے پر ماضی میں ہمارے ہی لوگ ہمارے خلاف ہو گئے جن میں پشتون اور قبائلی آبادی قابل ذکر ہے۔
انھوں نے کہا کے ماضی میں ملک پر کئی عسکریت پسندانہ حملے ہوئے جس کی وجہ ہزاروں جانیں چلی گئیں۔ یہی نہیں بلکہ سابقہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو بھی ہلاک ہوگئیں۔ شہری علاقوں میں جتنے زیادہ فوجی آپریشنز کیے گئے، اس کے اتنے ہی زیادہ نقصانات ہوئے۔ ایک وقت میں 50 شدت پسند گروپ پاکستان پر حملہ آور تھے۔
عمران خان نے کہا کہ 'ہم (پاکستان) کرائے کی بندوق کی طرح تھے۔ ان کو (امریکہ) کو افغانستان میں جنگ جیتنی تھی، لیکن وہ پاکستان کا استعمال کر کے یہ کرنا چاہتے تھے، جو ہم کبھی نہیں کر سکتے۔'
پاکستانی وزیر اعظم نے مزید کہا کہ انہوں نے متعدد دفعہ امریکی حکام کو خبردار کیا کہ امریکہ عسکری طور پر افغانستان میں اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتا اور وہ وہاں پھنس جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کو افغانستان میں اپنی موجودگی کے عروج پر طالبان کے ساتھ طاقت کی پوزیشن سے سیاسی تصفیے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔
واضح رہے کہ عمران خان اس سے قبل امریکہ کے افغانستان سے نکلنے پر تنقید کر چکے ہیں اور کہا ہے کہ انہوں نے طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے صدر جو بائیڈن کے ساتھ بات نہیں کی ہے، اگرچہ پاکستان ایک بڑا غیر نیٹو اتحادی ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم نے کہا 'میں تصور کرتا ہوں کہ جو بائیڈن بہت مصروف ہیں لیکن امریکہ کے ساتھ ہمارا رشتہ صرف ایک فون کال پر منحصر نہیں ہے بلکہ اسے کثیر الجہتی تعلقات کی ضرورت ہے۔'
پیر کے روز سیکریٹری آف اسٹیٹ اینٹونی بلنکن نے کہا کہ امریکہ انخلا کے بعد پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کا ازسرنو جائزہ لے گا۔ انہوں نے ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی کی سماعت کے دوران کانگریس کو بتایا کہ پاکستان کے بہت سے مفادات ہیں جو ہمارے ساتھ متصادم ہیں۔