بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے اس تعلق سے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ ادارے کے حاصل کردہ ڈیٹا بیس میں ایغور مسلمانوں کے بیرون ممالک میں رہنے والے رشتہ داروں کے ساتھ بات چیت کی گئی ہے۔ ملک قراقس کے رہنے والے ان 311 افراد سے بات چیت کی گئی ہے۔ ان کے رشتے دار جو کہ تقریباً 2،000 سے زیادہ ہیں اور یہ چین میں رہائش پزیر ہیں۔ ان کے رشتے داروں، پڑوسیوں اور دوستوں کے بارے میں معلومات لی گئی ہیں۔
ہر اندراج میں زیر حراست افراد کا نام، پتہ، قومی شناختی نمبر، نظربندی کی تاریخ اور مقام کے ساتھ ساتھ ان کے کنبہ، مذہبی اور محلے کا پس منظر، نظربندی کی وجہ اور ان کی رہائی یا نظر بندی کے بارے میں فیصلہ شامل ہے۔
اس ڈیٹا بیس سے یہ سامنے آیا ہے کہ کس طرح چینی انتظامیہ ایغور مسلمانوں کے بارے میں پوری تفصیلات جمع کرتی ہے، اور پھر انتظامیہ یہ طے کرتی ہے کہ کسے حراستی کیمپ میں ڈالا جائے اور کسے نہیں۔
چین میں ابھی تک جتنے بھی حراستی کیمپس بنائے گئے ہیں، ان میں لاکھوں کی تعداد میں اقلیتوں کو رکھا گیا ہے، ان سب میں ایغور مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
ڈیٹا بیس سے پتہ چلتا ہے کہ چینی حکومت مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو حراستی کیمپ میں ڈال رہی ہے نہ کہ کسی سیاسی یا پھر کسی اور وجہ سے۔ چینی انتظامیہ کی طرف سے ان لوگوں کو حراستی کیمپس میں ڈالا جارہا ہے، جو مسجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں، داڑھی رکھتے ہوں۔ اور وہ مذہبی شعار اختیار کرتے ہوں۔
انتظامیہ کی طرف سے کئی بار پورے کنبے کو حراستی کیمپس میں منتقل کر دیا جاتا ہے، جس سے پورا خاندان تباہ ہو جاتا ہے۔