اردو

urdu

ETV Bharat / international

ناگورنو قرہباخ میں تاریخی گرجا گھر پر گولہ باری

آذربائیجان کی وزارت دفاع نے گرجا گھر پر حملے کی تردید کی ہے اور کہا کہ 'اس کی فوج تاریخی، ثقافتی اور خاص طور پر مذہبی عمارتوں اور یادگاروں کو نشانہ نہیں بناتی ہے'۔

By

Published : Oct 9, 2020, 10:38 AM IST

historic cathedral in nagorno-karabakh shelled
غازان چیٹسوس کیتیڈرل کا تباہ حال منظر

آرمینیا نے آذربائیجان پر متنازعہ علاقہ ناگورنو قرہباخ میں گولہ باری کا الزام لگایا ہے جہاں تقریبا دو ہفتوں سے جاری شدید لڑائی میں متعدد افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔

ویڈیو

اسی دوران مذہبی عبادتگاہ ہولی سیور کیتھیڈرل کو نقصان پہنچا ہے جسے غازان چیٹسوس کیتھیڈرل بھی کہا جاتا ہے جس پر شدید گولہ باری کی گئی۔ گولہ باری کے دوران گرجا گھر کے خوبصورت گنبد کو نشانہ بنایا گیا جس سے عمارت کے اندرونی حصہ کو نقصان پہنچا ہے۔

میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ جس وقت گولہ باری کی جارہی تھی اس وقت گرجا گھر کے اندر لوگ عبادت میں مصروف تھے۔ اچانک ہوئے اس حملہ میں ایک شخض زحمی ہوا تو وہیں حملہ کے سبب دیگر کئی افراد ذہنی تناؤ کا شکار ہوئے ہیں۔

مقامی لوگ گولہ باری کے بعد چراغاں کر تے ہوئے غم منارہے ہیں

آرمینی عہدیداروں کے مطابق کئی گھنٹوں کے بعد گرجا گھر پر دوبارہ گولہ باری ہوئی جس میں دو روسی صحافی زخمی ہوئے جن کو اسپتال میں داخل کیا گیا ہے۔

آرمینیا کی وزارت خارجہ نے اس گولہ باری کی مذمت کرتے ہوئے اسے بہیمانہ جرم اور انسانیت کے لیے ایک چیلنج قرار دیتے ہوئے آذربائیجان کو متنبہ کیا ہے کہ مذہبی مقامات کو نشانہ بنانا ایک جنگی جرم ہے۔

غازان چیٹسوس کیتیڈرل کے اندر تباہ حال منظر

آذربائیجان کی وزارت دفاع نے گرجا گھر پر حملے کی تردید کی ہے اور کہا کہ 'اس کی فوج تاریخی، ثقافتی اور خاص طور پر مذہبی عمارتوں اور یادگاروں کو نشانہ نہیں بناتی ہے'۔

واضح رہے کہ 19 ویں صدی میں تعمیر کردہ اس گرجا گھر کو 1920 میں نسلی تشدد کے دوران نمایاں نقصان پہنچا تھا۔ 1990 کی دہائی میں آرمینیائی اور آزربائیجانی فوج کے مابین لڑائی کے بعد اسے بحال کیا گیا تھا اور یہ آرمینیائی اپوستولک چرچ کا حصہ ہے۔

غازان چیٹسوس کیتیڈرل کے ایک پورٹریٹ کا تباہ حال منظر

گرجا کے ایک فادر آندریاس نے اس حملے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا ہے کہ 'مجھے اس بات پر تکلیف ہورہی ہے کہ ہمارے خوبصورت کیتھیڈرل کی دیواریں تباہ ہوگئیں'۔

انھوں نے کہا ہے کہ 'آج کل کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرتا اور ہمارے لوگ ہماری مادر وطن کا دفاع کرتے ہوئے مر رہے ہیں'۔

غازان چیٹسوس کیتیڈرل کا ایک پورٹریٹ

واضح رہے کہ آذربائیجان اور آرمینیائی فوج کے مابین لڑائی کا تازہ ترین آغاز ستائیس ستمبر کو ہوا تھا اور ناگورنو قرہباخ کے متنازعہ علاقے میں کئی دہائیوں سے جاری تنازع اس کا اصل سبب ہے۔ یہ علاقہ آذربائیجان میں ہے لیکن 1994 میں علیحدگی پسندی کے خاتمے کے بعد سے آرمینیا کی حمایت حاصل ہے۔ جو نسلی آرمینیائی فوج کے کنٹرول میں ہے۔

آرمینیا اور آذربائیجان کے رہنماؤں سے کئی ایک ملاقات کے بعد روسی صدر ولادیمیر پوتن نے جمعرات کے روز دیر سے فریقین جنگ بندی کی تجویز پیش کی۔

کریملن نے کہا کہ آرمینیا اور آذربائیجان کے وزرائے خارجہ کو جمعہ کے روز ماسکو سے مشاورت کے لئے بلایا گیا جس میں صلح پر بات چیت کی جائے گی۔

آرمینیائی اور آذربائیجانی عہدیداروں نے روسی تجویز پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔

اس گرجا گھر کو 1920 میں نسلی تشدد کے دوران نمایاں نقصان پہنچا تھا

جنگ بندی کے متعدد بین الاقوامی مطالبات کے باوجود جنگی طیاروں اور ڈرونز سے لڑائی جاری ہے۔ دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر الزام لگایا کہ وہ ناگورنو قرہباخ کے ضمن میں دشمنی بڑھا رہے ہیں اور عام شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

  • ارمینیا ۔ آذربائیجان کے درمیان تنازعہ کی تاریخ اور حقیقی وجہ:

قابل ذکر بات یہ ہے کہ آرمینیا اور آذربائیجان دونوں سابقہ ​​سوویت یونین کا حصہ تھے، لیکن سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد دونوں ممالک آزاد ہوگئے۔ علیحدگی کے بعد دونوں ممالک کے مابین ناگورنو قرہباخخطے پر تنازعہ پیدا ہوا۔

اطلاع کے مطابق دونوں ممالک اس خطہ پر اپنا حق جتاتے رہے ہیں۔ 4400 مربع کلومیٹر کے اس رقبہ کو بین الاقوامی قوانین کے تحت آذربائیجان کا علاقہ قرار دیا گیا ہے، لیکن یہاں آرمینیائی نژاد آبادی زیادہ ہے۔

اس کی وجہ سے 1991 سے دونوں ممالک کے مابین تنازع جاری ہے۔ سنہ 1994 میں روس کی ثالثی میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی ہوئی تھی، لیکن اس کے بعد سے دونوں ممالک کے مابین چھٹ پٹ لڑائی جاری ہے۔ تب سے دونوں ممالک کے مابین 'لائن آف کنٹیکٹ' موجود ہے۔ لیکن رواں برس جولائی کے بعد سے حالات مزید خراب ہوگئے۔ یہ علاقہ ارتسخ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

امریکہ، روس، جرمنی اور فرانس سمیت کئی دوسرے ممالک نے فریقین سے امن کی اپیل کی ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details