خالد پائندہ، جو کبھی افغانستان کے وزیر خزانہ تھے، اب واشنگٹن میں ٹیکسی چلا کر زندگی گزار رہے ہیں۔ طالبان کے کابُل پر قبضے سے ایک ہفتہ قبل خالد پائندہ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جب صدر اشرف غنی نے ایک جلسۂ عام میں ان پر تنقید کی تھی۔ Former Afghan Finance Minister Drives Taxi in US
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق سابق وزیر خزانہ نے نہیں سوچا تھا کہ حکومت گرنے والی ہے تاہم انہوں نے محسوس کیا کہ وہ اشرف غنی صدر کا اعتماد کھو چکے ہیں۔
افغانستان کے المناک زوال کے مہینوں بعد بھی یہ سوال اب بھی پائندہ کو پریشان کر رہا ہے۔ پائندہ جمہوری طور پر منتخب حکومت کے تیزی سے خاتمے کے لیے اپنے ساتھی افغانیوں اور خود کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
سابق وزیر نے امریکیوں پر ملک کو طالبان کے حوالے کرنے اور پائیدار اقدار سے غداری کرنے کا الزام بھی لگایا جس نے ان کی لڑائی کو متحرک کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ابھی میرے پاس کوئی جگہ نہیں ہے۔ میں نہ یہاں سے تعلق رکھتا ہوں اور اب نہ ہی افغانستان سے میرا تعلق ہے۔ یہ بہت خالی احساس ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس اگست میں طالبان نے افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا تب سے ملک افراتفری کا شکار ہے اور انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے۔
گزشتہ ہفتے افغانستان کو مسلسل دوسرے سال دنیا کے غیر خوشحال ترین ملک کے طور پر درج کیا گیا تھا۔
ورلڈ ہیپی نیس کی رپورٹ جو کہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے حل کے نیٹ ورک کی اشاعت ہے، ہر سال تقریباً 149 ممالک کے سروے کے ساتھ خوشحالی کی درجہ بندی کرتی ہے۔ سالانہ رپورٹ میں سروے کیے گئے 149 ممالک میں افغانستان کو آخری درجہ دیا گیا جب کہ فن لینڈ دنیا کا سب سے خوشحال ملک رہا۔