مذاکراتی ٹیم کی قیادت سابق انٹلیجنس چیف معصوم استانک زئی کریں گے جو ایک پشتون کی حیثیت سے طالبان کے ساتھ قبائلی شناخت رکھتے ہیں۔
اگرچہ فوری طور پر ابھی تک یہ بات سامنے نہیں آئی کہ سابق چیف ایگزیکٹیوعبداللہ عبداللہ نے اس وفد کی تائید کی ہے یا نہیں تاہم اس وفد میں باتور دوستم بھی شامل ہیں جن کے والد سابق عسکریت عبدالرشید دوستم، عبداللہ عبداللہ کے حلیف تھے۔
دوسری جانب افغانستان کی وزارت امن نے کہا کہا 'افغانستان صدر اشرف غنی نے وفد کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور ان پر زور دیا کہ بات چیت کے تمام مراحل میں ملک کے بہترین مفاد، افغان عوام کی مشترکہ اقدار اور متحدہ افغانستان کے اصولی موقف کو مطمح نظر رکھیں۔
وفد میں شامل 5 خواتین میں حکومت کی اعلیٰ امن کونسل کی نائب رہنما حبیبہ سرابی بھی شامل ہیں جو ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔
علاوہ ازیں وفد میں ایک خاتون مندوب فوزیہ کوفی بھی ہیں جو تاجک نسل سے ہیں اور عورتوں کے حقوق کی سرگرم کارکن ہیں اور طالبان کے خلاف سخت موقف رکھتی ہیں۔
تاہم جہاں ایک طرف اس وفد کا اعلان کیا گیا ہے وہیں ابھی یہ نہیں معلوم کہ یہ بین الافغان مذاکرات کب اور کہاں شروع ہوں گے۔
ادھر عالمی وبا کورونا وائرس کے پیش نظر عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ مذاکرات کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ افغان حکومت نے کہا تھا کہ ان کے عہدیدار براہ راست طالبان سے ملاقات کریں گے اور بڑے پیمانے پر قیدیوں کے تبادلہ پر بات چیت کریں گے جس میں 5 ہزار طالبان اور ایک ہزار حکومتی قیدی شامل ہیں۔
خیال رہے کہ قیدیوں کے تبادلے سے متعلق امریکہ اور طالبان کا معاہدہ ہوچکا ہے جس پر افغان صدر اشرف غنی دستخط کنندہ نہیں ہیں۔
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان کے رہنماوں، افغان صدر اشرف غنی اور سابق چیف ایگزیکٹیوعبداللہ عبداللہ کے مابین متوازی حکومت کی تشکیل سازی میں عدم اتفاق پر ایک ارب ڈالر امداد میں کمی کا فیصلہ کیا تھا۔مزید یہ کہ امریکہ نے دھمکی دی ہے کہ اگر ان میں اتفاق نہ ہوا تو ہر قسم کے تعاون میں کمی کردی جائے گی۔
بتادیں کہ افغان طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ طے پایا تھا۔معاہدہ کے مطابق امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان سے اگلے 14 ماہ میں تمام غیرملکیوں بشمول عسکری، نیم عسکری، ٹھیکیدار، شہری، نجی سیکورٹی اہلکار اور مشیران کا انخلا کو یقینی بنائیں گے۔
معاہدے میں کہا گیا تھا کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان معاہدہ طے پاگیااس کے اتحادی پہلے 135 دنوں میں 8 ہزار 600 فوجیوں کا انخلا یقینی بنائیں گے۔
افغان طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان طے پاجانے والے معاہدہ پر جہاں یوروپی یونین اور پاکستان سمیت کئی ممالک نے خوشی کا اظہار کیا تھا، وہیں کچھ امریکی سیاستدان ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کو اس پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا تھا تاہم امریکی صدر نے امن معاہدے پر ہونے والی تنقید کو بھی غیر اہم قرار دیا تھا۔
امن معاہدہ طے پانے کے چند گھنٹوں بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس پر اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ پریس کانفرنس کی اور افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت سے جلد ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ معاہدے کے تحت امریکہ اور اس کے اتحادی بیک وقت افغانستان سے 13 ہزار سے ساڑھے 8 ہزار افواج کو فوری طور پر واپس بلا سکتے ہیں اور معاہدہ انہیں یہ بھی اختیار دیتا ہے کہ ضرورت پڑنے پر وہ واپس فوج کو افغانستان میں تعینات بھی کر سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ افغان طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان طے پانے والا معاہدہ 4 مرکزی شقوں پر مشتمل ہے۔ان مرکزی نکات کا پہلے حصے کے مطابق طالبان افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جن سے امریکہ یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہوگا۔
معاہدہ کے دوسرے حصہ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادی فوجیوں کا انخلا یقینی بنایا جائے گا۔معاہدے کے تیسرے شق میں کہا گیا تھا کہ طالبان 10مارچ 2020 سے بین ا افغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔
اسی طرح معاہدے کے چوتھے اور آخری مرکزی شق میں کہا گیا تھا کہ بین افغان مذاکرات کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔