افغانستان میں طالبان کی نئی عبوری حکومت کے وزیر تعلیم نے پریس کانفرنس کرکے افغانستان میں نئی تعلیمی پالیسی سے آگاہ کیا ہے۔
نئی طالبان حکومت میں وزیر تعلیم عبدالباقی حقانی وزیر تعلیم عبدالباقی حقانی نے کہا کہ طالبان زندگی کے ہر شعبے میں اسلام اور قومی اقدار سے متصادم ہر چیز کے لیے مثبت نقطہ نظر رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو بھی چیز اسلام اور قومی اقدار سے متصادم ہے امارت اسلامیہ اس کے خلاف نہیں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے سلسلے میں صنفی علیحدگی کو بھی نافذ کیا جائے گا، خواتین اور مرد طلبا کو الگ الگ کردیا جائے گا اور ہم لڑکیوں اور لڑکوں کو مل کر پڑھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
حقانی نے کہا کہ حجاب لازمی ہوگا لیکن اس نے یہ واضح نہیں کیا کہ اس کا مطلب سر پر اسکارف ہے یا مکمل چہرے کا پردہ کرنا ہے۔
حقانی نے کہا کہ یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے مضامین کا بھی جائزہ لیا جائے گا لیکن تفصیل نہیں دی۔ افغانستان کی جامعات کے فارغ التحصیل طلبا، خطے اور دنیا کے دیگر ممالک کی جامعات کا مقابلہ کریں۔
طالبان کی حمایت میں باحجاب خواتین کی ریلی
واضح رہے کہ طالبان نے اپنے سابقہ اقتدار کے دوران موسیقی اور آرٹ پر پابندی عائد کر دی تھی لیکن اس مرتبہ ٹی وی چینلز بدستور اپنی نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں اور نیوز چینلز میں خواتین خبریں پیش کر رہی ہیں۔۔
وہیں دنیا باریک بینی سے دیکھ رہی ہے کہ 1990 کی دہائی کے آخر میں طالبان اپنی پہلی بار اقتدار سے کس حد تک مختلف کام کر سکتے ہیں۔ اس دور میں لڑکیوں اور عورتوں کو تعلیم سے محروم کر دیا گیا اور انہیں عوامی زندگی سے خارج کر دیا گیا تھا۔
طالبان نے اشارہ دیا ہے کہ وہ خواتین کے تئیں اپنے رویوں میں تبدیلی لائے ہیں۔ تاہم انہوں نے حالیہ دنوں میں مساوی حقوق کا مطالبہ کرنے والی خواتین مظاہرین کے خلاف تشدد کا استعمال کیا ہے۔