کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد مختلف خدشات کے پیشِ نظر افغانستان کے اکثر ٹی وی چینلز نے خواتین اینکرز کو ٹی وی اسکرینز سے ہٹادیا تھا تاہم طالبان کے خواتین کے بارے میں اعلان کردہ پالیسی کے سبب دو روز بعد خواتین اینکرز کی ٹی وی اسکرین پر واپسی کو خوش آئند قرار دیا جارہا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق 15 اگست کو کابل میں داخلے اور ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد گزشتہ روز طالبان نے سرکاری ریڈیو اور ٹی وی پر نشریات کا آغاز کردیا تھا۔اس حوالے سے سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی تصاویر میں سرکاری چینل پر ایک مرد کو خبریں پڑھتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
ڈان میں شائع رپورٹ کے مطابق کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد یہ خدشات ظاہر کیے جارہے تھے کہ صحافیوں، بالخصوص خواتین کو فرائض کی انجام دہی میں شدید مشکلات پیش آسکتی ہیں اور شاید انہیں کام سے روک دیا جائے گا۔تاہم طالبان کے قبضے کے 2 روز بعد 17 اگست کو افغان نشریاتی ادارے 'طلوع نیوز' کے سینئر عہدیدار کی جانب سے خاتون اینکر کی تصویر شیئر کی گئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹی وی اسکرینز پر طالبان کے دور میں خواتین واپس آگئی ہیں۔
طلوع نیوز کے ہیڈ آف نیوز مراکا پوپل نے آج صبح خاتون اینکر کی تصویر ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ 'ہم نے آج خواتین اینکرز کے ساتھ اپنی نشریات دوبارہ شروع کردیں '۔بعدازاں انہوں نے ایک اور ٹوئٹ میں کچھ تصاویر شیئر کیں جس میں طلوع نیوز کی خاتون اینکر کو طالبان رہنما کا انٹرویو لیتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق تصویر میں موجود نیوز اینکر بہشتہ ارغند ہیں، جو طالبان کی میڈیا ٹیم کے رکن مولوی عبدالحق حماد سے کابل شہر کی صورتِ حال پر بات چیت کررہی ہیں۔بعض ماہرین کے مطابق طالبان کو خواتین کے ٹیلی ویژن اسکرین پر آنے سے بظاہر اب کوئی مسئلہ نہیں ہے۔افغانستان میں خواتین نہ صرف اسٹوڈیو سے اینکرز کے فرائض انجام دے رہی ہیں بلکہ وہ کابل کی سڑکوں سے بھی رپورٹنگ کررہی ہیں۔