اردو

urdu

ETV Bharat / international

لداخ معاملے میں بھارت چین کے درمیان کشیدگی پر خصوصی انٹرویو

خطے میں تنازع کی شروعات مئی ماہ میں ہوئی تھی اور دونوں ممالک نے ایل اے سی پر اپنی اپنی افواج کو تعینات کر دیا تھا، جس کے سبب یہاں کے خانہ بدوشوں کی نقل و حرکت نہ صرف متاثر ہوئی ہے بلکہ تھم سی گئی ہے۔

sdf
sdf

By

Published : Jun 6, 2020, 8:38 PM IST

Updated : Jun 8, 2020, 12:15 PM IST

بھارت اور چین کے درمیان لداخ کے مسئلے پر کشیدگی اب بھی برقرار ہے۔ سنیچر کے روز لداخ کے ایک گاوں چوشل میں دونوں ممالک کے مابین کمانڈر سطح کی مذاکرات بھی ہوئی ہے، لیکن خطے کے حالات میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔

اس دوران اس اہم معاملے پر ای ٹی وی بھارت کے نیوز ایڈیٹر بلال بھٹ نے 'لداخ خودمختار پہاڑی ترقیاتی کونسل' کے ایگزیکٹو کونسلر کونچوک اسٹینزِن کے ساتھ خصوصی گفتگو کی۔

ویڈیو

بات چیت کے دوران اسٹینزِن نے بھارتی حدود میں چینی فوج کے داخل ہونے کی تصدیق کی اور کہا کہ چینی فوج اب تک یہاں سے پیچھے نہیں ہٹی ہے۔

انہوں نے لداخ کے لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) میں پینگونگ اور گلوان کی وادی میں موسم سرما کی چرا گاہوں سے متعلق زمینوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔

خطے میں تنازع کی شروعات مئی ماہ میں ہوئی تھی اور دونوں ممالک نے ایل اے سی پر اپنی اپنی افواج کو تعینات کر دیا تھا، جس کے سبب یہاں کے خانہ بدوشوں کی نقل و حرکت نہ صرف متاثر ہوئی ہے بلکہ تھم سی گئی ہے۔

اسٹینزِن نے کہا کہ حالیہ تنازع کے دوران اب تک ایل اے سی کے دیہاتوں میں معمولات زندگی متاثر نہیں ہوئی ہے، تاہم چراگاہوں کے بارے میں انہوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ان کا کہنا ہےکہ سرحدی علاقوں میں بیشتر افراد مویشیوں اور پشمینہ بکریوں کی پرورش سے وابستہ ہوتے ہیں۔

اسٹینزن نے بتایا کہ تقریبا 7 گاوں، جو ایل اے سی پر ہیں، وہ ایک بفر زون میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ خانہ بدوشوں کے لئے معاش کا سب سے بڑا ذریعہ مویشی پروری اور پشمینہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے مویشیوں کو سردیوں میں چرنے والی زمینوں پر لے جاتے ہیں، لیکن گذشتہ 15 دنوں میں یہ زمینیں متنازع بن چکی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ علاقے میں فوج کا گشت عام بات ہے اور بسا اوقات 'کارڈن اینڈ سرچ آپریشنز' ایک گھنٹہ تک جاری رہتا تھا، لیکن گذشتہ مہینے سے کاسو کا طویل عرصے تک جاری رہنا اور فوج کی زبردست گشت سے لوگوں میں خوف کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات کے پیش نظر وادی گلوان میں شاید ہی کوئی شخص گھر سے باہر نکل رہا ہو۔

اسٹینزن کا کہنا ہے کہ چینی فوج 'ہمارے خطے میں داخل ہو گئی ہے اور ان کا خیال ہے کہ دونوں ممالک کے مابین ہونے والے مذاکرات سے تنازع حل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لداخ خطے میں دونوں ممالک کے مابین کوئی حد بندی کی لائن موجود نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ لائن آف ایکچول کنٹرول پر بسنے والے لوگ مشکلات سے دوچار ہوسکتے ہیں، کیوں کہ یہاں چینی فوج قبضہ کرنا چاہتی ہے اور ان لوگوں کے لیے یہاں کی چرا گاہ ہی واحد ذریعہ معاش ہے'۔

خیال رہے کہ ایل اے سی پر حد بندی نہ ہونے کے سبب یہاں کی چراگاہوں پر دونوں ممالک کا دعوی بدستور جاری رہتا ہے۔ کبھی چین تو کبھی بھارت اسے اپنا حصہ قرار دیتا رہتا ہے۔

اسٹیزن کا خیال ہے کہ جب تک دونوں ممالک کے درمیان واضح طور پر حد بندی قائم نہیں کر دی جاتی، یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔

بعض اوقات چینی فوج خانہ بدوشوں کے بھیس میں چراگاہوں میں داخل ہو کر اس علاقے پر دعوی کرتی ہے۔

اسٹینزین نے مشورہ دیا کہ 'بھارت اپنے خانہ بدوشوں کو آزادانہ طور پر چرنے والے علاقے میں جانے کی اجازت دے تاکہ ہم مذاکرات کے میز پر آ سکیں۔ چراگاہوں میں ان کی آزادانہ حرکت سے بھارت کو چینی نقل و حرکت سے متعلق معلومات حاصل کرنے میں مدد ملے گی'۔

اسٹینزن کے مطابق ایل اے سی پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ اگر چہ دیہاتوں اور بنیادی طور پر 11 سو کی آبادی پر مشتمل سات گاؤں سے دور ہو رہا ہے، لیکن موجودہ حالات کا اثر ان کی زندگی پر براہ راست پڑے گا۔

اسٹینزین نے کہا کہ اگر سردیوں تک کوئی حل نہیں نکلتا تو لداخ چین کے ساتھ سرحد اشتراک کرنے والے گاوں کے لوگوں کی زندگی پر اس کا بُرا اثر پڑے گا۔

Last Updated : Jun 8, 2020, 12:15 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details