اردو

urdu

منشیات نوشی کے خلاف طالبان سخت

By

Published : Oct 9, 2021, 2:05 PM IST

افیون کی غیر قانونی تجارت افغانستان کی معیشت سے جڑی ہوئی ہے۔ پوست کے کاشتکار طالبان کے لیے ایک اہم دیہی حلقے کا حصہ ہیں اور زیادہ تر فصل کی کٹائی کے بعد بھرپور فائدہ پہنچاتے ہیں۔ ہنگامے کے دوران طالبان نے اسمگلروں پر ٹیکس لگا کر تجارت سے بڑا فائدہ اٹھایا ہے۔

Drug users live in fear in Kabul
Drug users live in fear in Kabul

افغانستان کے نئے حمراں طالبان نے ملک میں منشیات کے استمعال پر سختی سے پابندی لگانا شروع کر دیا ہے۔

منشیات نوشی کے خلاف طالبان سخت

رات کے وقت دارالحکومت کابل کے منشیات کے اہم اڈوں پر پولیس چھاپہ ماری کر رہی ہے۔

اس دوران شہر کے پلوں کے نیچے، کچرے کے ڈھیر اور گندے پانی کے قریب ہیروئن (heroin) اور میتھامفیٹامائن (methamphetamines) کے عادی سینکڑوں بے گھر مردوں کو پکڑ کر مارا پیٹا گیا اور زبردستی علاج کے مراکز میں داخل کرایا گیا۔

ایک شام کوٹیسنگی محلے میں ایک پل کے نیچے کچھ لوگ ایک مردے کے قریب تمباکو نوشی کر رہے تھے۔

منشیات کے عادی افراد میں سے ایک نظام الدین نے کہا کہ "طالبان آئے اور اسے مارا۔ اگلی صبح طالبان کے مارنے کے بعد ہم نے اسے مردہ پایا۔"

انہوں نے اسے کپڑے سے ڈھانپ دیا لیکن اسے دفن کرنے کی ہمت نہیں کرسکے کیونکہ طالبان سڑکوں پر گشت کرتے ہیں۔

منشیات کے عادی شخص جمی نے کہا کہ "جب سے وہ (طالبان) آئے ہیں وہ ہمیں یہاں یا کہیں اور نہیں رہنے دیتے ہیں۔ جب وہ ہمیں دیکھتے ہیں تو وہ ہمیں مارتے ہیں جب تک کہ وہ ہمیں مار نہیں دیتے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ جانوروں کو مار رہے ہیں، انسانوں کو نہیں۔ جانوروں سے اتنی نفرت نہیں کی جاتی جتنی نشے کے عادی سے کی جاتی ہے۔"

کچھ ہیلتھ ورکرز طالبان کی اس سختی کا خیرمقدم کرتے ہیں، جن کے پاس طالبان کی سختی کے مطابق کام کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے۔

کوٹسانگی محلے میں گشت کے سربراہ ایک طالبان افسر مولوی فضل اللہ نے کہا کہ "یہ اہم نہیں ہے کہ ان میں سے کچھ افراد مر جاتے ہیں لیکن دوسرے ٹھیک ہو جائیں گے۔ ان کے ٹھیک ہونے کے بعد وہ آزاد ہو سکتے ہیں۔"

پچھلے ہفتے ایک چھاپے کے دوران 150 سے زائد مردوں کو ڈسٹرکٹ پولیس اسٹیشن لے جایا گیا، جہاں ان کا سامان جلا دیا گیا۔

آدھی رات تک انہیں کابل کے کنارے ایوسینا میڈیکل ہسپتال برائے منشیات (Avicenna Medical Hospital for Drug Treatment) علاج کے لیے لے جایا گیا۔

2003 میں امریکی فوج نے فوجی اڈہ کیمپ فینکس قائم کیا تھا جسے 2016 میں منشیات کے علاج کا مرکز بنا گیا۔

منشیات کے عادی افراد کو نہلا کر ان کے سر منڈائے گئے۔

مرکز کے ہیڈ سائیکائٹرسٹ ڈاکٹر وحید اللہ کوشان نے کہا کہ محدود طبی دیکھ بھال کے ساتھ انہیں منشیات سے پرہیز کرنے کی صلاح دی جاتی ہے تاکہ یہاں سے نکلنے کے بعد انہیں درد اور تکلیف نہ ہو۔

کوشان نے تسلیم کیا کہ ہسپتال میں متبادل اوپیئڈز (opioids)، بپرنورفائن (buprenorphine) اور میتھاڈون (methadone) کی کمی ہے، جو عام طور پر ہیروئن کی لت کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔

ایوسینا میڈیکل ہسپتال برائے منشیات کے میڈیکل اسٹاف محمد حنیف پوپل کا کہنا ہے کہ "تین طریقہ کار ہیں۔ پہلا طریقہ ڈی ٹاکسیکیشن ہے۔ بہت سے مریض اس مرحلے میں درد محسوس کرتے ہیں۔ مریض 15 دن تک ڈی ٹاکسیکیشن کے مرحلے میں رہتے ہیں۔ مریض درد، ہائی ٹینشن، قے کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں دوسری قسم کی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں۔ اگر ہم ان کا علاج نہیں کر سکتے، ہم انہیں ذمہ دار ہسپتالوں میں بھیجیں گے۔ اس کے بعد وہ 45 دن تک ہمارے پاس رہیں گے۔ 15 دن کے بعد ہم مریضوں کو سائیکو تھراپی سے متعارف کراتے ہیں۔ "

ایک ویٹنگ روم والدین اور رشتہ داروں سے بھرا ہوا تھا تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کے ان کے لاپتہ عزیز کہیں منشیات کے چھاپوں میں حراست میں تو نہیں لیے گئے ہیں۔

12 دنوں سے لاپتہ 21 سالہ بیٹے کی ماں نے جب وہاں اپنے بیٹے کو دیکھا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

ماں اپنے بیٹے کو گلے لگاتے ہوئے روتی ہوئی بولی کہ "میری پوری زندگی میرا بیٹا ہے"۔

منشیات کے خلاف طالبان کی لڑائی آسان نہیں ہے کیونکہ ملک کو معاشی تباہی اور ممکنہ انسانی تباہی کے امکانات کا سامنا ہے۔

طویل عرصے سے غیر ملکی امداد پر انحصار کرنے والے افغانستاں کو پاندیوں کے بعد بین الاقوامی تنظیموں کی مالی مدد کے لیے نااہل بنا دیا ہے، جو کہ ریاستی اخراجات کا 75 فیصد ہے۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں خاص طور پر خواتین کے حوالے سے، نے طالبان کو بین الاقوامی ترقیاتی تنظیموں میں غیر مقبول بنا دیا ہے۔

پانی کا بحران شروع ہو چکا ہے، لوگوں کی اجرت کئی ماہ سے بقایہ ہے، غذا کی قلت ہے حالانکہ سردیوں کے لئے ابھی کافی انتظار کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان معاشی بحران کے ساتھ ساتھ داخلی سکیورٹی کے مسائل سے بھی دوچار

غیر ملکی فنڈز کے بغیر حکومت کی آمدنی کسٹم اور ٹیکس پر انحصار کرتی ہے۔

افیون کی غیر قانونی تجارت افغانستان کی معیشت سے جڑی ہوئی ہے۔ پوست کے کاشتکار طالبان کے لیے ایک اہم دیہی حلقے کا حصہ ہیں اور زیادہ تر فصل کی کٹائی کے بعد بھرپور فائدہ پہنچاتے ہیں۔

ہنگامے کے دوران طالبان نے اسمگلروں پر ٹیکس لگا کر تجارت سے فائدہ اٹھایا، یہ عمل اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں مختلف صنعتوں پر نافذ ہوتا ہے۔

افغان منشیات کی تجارت کے ماہر ڈیوڈ مینس فیلڈ کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس گروپ نے 2020 میں 20 ملین ڈالر کمائے، جو کہ ٹیکس وصولی سے حاصل ہونے والے دیگر ذرائع کے مقابلے میں ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ عوامی طور پر طالبان نے ہمیشہ منشیات کے کاروبار سے رشتے سے انکار کیا ہے۔

طالبان نے امریکی حملے سے قبل 2000-2001 کے درمیان افیون کی پیداوار پر بڑی حد تک کامیاب پابندی بھی نافذ کی تھی لیکن اس کے بعد نئی حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی۔

سابقہ ​​انتظامیہ کے دوران منشیات کے عادی افراد کو پکڑا گیا لیکن طالبان زیادہ طاقتور ہیں اور نشے کے عادی بھی طالبان سے خوفزہ رہتے ہیں۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details