جنرل ہوڈا، جنہوں نے اوڑی حملے کے جواب میں بھارت کی جانب سے کی گئی سرجیکل اسٹرائیک کی قیادت کی تھی، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین پر کورونا وائرس کے حوالے سے اور ہانگ کانگ اور تائیوان میں رونما ہوئے واقعات کی وجہ سے امریکہ اور یورپ کا دباؤ ہے۔ کمونسٹ پارٹی آف چین اس دباو کی وجہ سے ہی جارح ہوگئی ہے اور اس کا نتیجہ لداخ میں لائن آف ایکچیول کنٹرول پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ در اصل چین دُنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ کمزور نہیں ہے۔
جنرل ہوڈا نے یہ بھی کہا کہ لداخ میں لائن آف ایکچول کنٹرول پر رونما ہوئے واقعات کو وادی میں بڑھتی ہوئی ملی ٹنسی اور کنٹرول لائن پر فائرنگ کے واقعات کے ساتھ ملا کر بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔تاہم اُن کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج مختلف محاذوں پر چیلنجز کا مقابلہ کرنے کےلئے تیار ہے۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کے متنازعہ ٹویٹ جس میں امریکی صدر نے ثالثی کی پیشکش کی ہے اس کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اور چین اس معاملے کو کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے بغیر ہی دو طرفہ طور پر حل کرسکتے ہیں۔
ذیل میں انٹرویو کے چند اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں:
سوال: ماضی میں چمر اور ڈوکلام کے مقامات پر بھی بھارت اور چین کے افواج آمنے سامنے آئی ہیں۔ لداخ میں لائن آف ایکچیول کنٹرول پر دونوں ملکوں کی افواج کا آمنا سامنا کس لحاظ سے ماضی کے متذکرہ واقعات سے مختلف ہیں؟
جواب: لداخ میں آج جو کچھ بھی ہورہا ہے، وہ ماضی میں رونما ہوئے اس طرح کے واقعات سے مختلف ہے۔ میرے خیال سے یہ اہمیت کے لحاظ سے مختلف ہے۔ اگر آپ ماضی میں چمر اور ڈوکلام میں رونما ہوئے واقعات اور سال 2013ء میں دپسنگ میں رونما ہوئے واقعہ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سارے واقعات مقامی فوجی کمانڈروں کی حرکت کی وجہ سے رونما ہوئے تھے۔ ڈوکلام میں چینی فوج ایک سڑک تعمیر کرنا چاہتی تھی۔ ہماری فوج نے آگے بڑھ کر بھوٹان کے خطے میں جاکر چینیوں سے گزارش کی کہ وہ یہ سڑک نہ بنائیں۔ یہی کچھ چمر میں بھی ہوا۔ یہاں بھی انہوں نے ایک سڑک بنانے کی کوشش کی تھی اور ہمارے لوگوں نے انہیں روک دیا۔ یہ معاملے مقامی سطح پر ہی حل ہوگئے۔ ڈوکلام واقعہ بھی ایک حد سے زیادہ نہیں بڑھا۔ ان سارے مقامات پر یہ بات بالکل واضح تھی کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور اس کے جواب میں ہم کیا چاہتے تھے۔ لیکن اس بار صورتحال بالکل مختلف ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہاں کا معاملہ کئی سالوں سے چل رہا ہے۔ ان جگہوں میں کئی ایسی جگہیں بھی ہیں، جن کے بارے میں پہلے کوئی تنازعہ نہیں تھا۔ مثال کے طور پر گلوان وادی میں ماضی میں کبھی کوئی مسئلہ درپیش نہیں آیا ہے۔ اس بار کی دراندازی میں چینی افواج کی تعداد زیادہ ہے۔ یہ واقعہ کسی صورت میں بھی سرحد پر تعینات چین کے مقامی کمانڈر کا کام نہیں ہے۔ بلکہ یہ اعلیٰ سطح پر کی گئی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ وہ آپسی تال میل کے ساتھ اندر داخل ہوگئے ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ چاہتے کیا ہیں؟ اس بارے میں صورتحال واضح نہیں ہے۔ اس لئے یہ ایک ایسی صورتحال ہے، جس کو ہمیں سنجیدگی سے لینا ہوگا۔
سوال: گزشتہ روز بیجنگ نے کہا کہ ’سرحد پر صورتحال مستحکم اور قابو میں‘ ہے۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بھارت اور چین کو مطلع کیا گیا ‘ہے کہ امریکہ ’متنازعہ خطے‘ میں معاملہ حل کرنے کےلئے’ثالثی یا درمیانہ داری‘ کرنے کےلئے تیار ہے۔ چونکہ امریکہ اور یورپ نے کورونا وائرس کے حوالے سے چین کو گھیرے میں لیا ہوا ہے اور ہانگ کانگ اور تائیوان میں کچھ واقعات رونما ہوئے ہیں۔ کیا ان ساری چیزوں کی وجہ سے لداخ میں رونما ہوا واقعہ جیو پالٹکس کے ساتھ جڑا ہوا نہیں ہے؟
جواب: جؤو کچھ بھی ہورہا ہے، وہ بلا شبہ بین الاقوامی صورتحال سے جڑا ہوا ہے۔ چین شدید دباؤ میں ہے۔ ٹیکنالوجی اور تجارت کے شعبوں میں امریکہ اور چین کی سرد جنگ جاری ہے۔ اس کی وجہ سے چین کا رویہ جارحانہ ہوگیا ہے۔ چین جنوبی سمندر میں اپنا دائرہ پھیلا رہا ہے۔ ہانگ کانگ میں نئے قوانین پاس کئے گئے۔ تائیوان میں قومی جذبات بھڑک رہے ہیں۔ چین یہ سب کچھ اس لئے کررہا ہے تاکہ وہ دُنیا کو یہ پیغام دے سکے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے چین کمزور ہوگیا ہے۔ چینی سفیر کی جانب سے دیئے گئے بیان کو ہم ایک مثبت بات قرار دے سکتے ہیں لیکن جب تک زمینی صورتحال تبدیل نہیں ہوجاتی ہے، اس طرح کے بیانات زخموں پر نمک پاشی کے مترادف لگیں گے۔ اب جہاں تک ڈونالڈ ٹرمپ کا تعلق ہے، مجھے نہیں لگتا ہے کہ اب کوئی اُن کی بات سنجیدگی سے لیتا ہے۔ اس مسئلے میں کسی تیسری پارٹی کی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بھارت اور چین کو خود حل کرنا ہوگا۔
سوال: بھارت نے ماضی میں سی پیک کی مخالفت کی ہے۔ بھارت نے کاڈریلیٹرل سیکورٹی ڈائیلاگ کے حوالے سے امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ قربت پیدا ہوگئی ہے جبکہ بھارت انڈو پیسفک کے معاملے پر بھی امریکہ کے ساتھ ہے۔ کیا یہ ساری باتیں چین کو کھٹکتی ہوں گی؟
جواب: یہ ساری باتیں موجودہ صورتحال کے وجوہات میں ایک فیکٹر ہیں۔ گلوبل ٹائمز میں ایک تبصرہ شائع ہوا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ بھارت کو امریکہ کے خیمے میں جاکر چین مخالف سرگرمیوں میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سب کچھ اُن کے لئے باعثِ تشویش ہے۔انڈین اوشین میں بھارتی بحریہ طاقت ور ہے۔ اور سمجھتے ہیں کہ اگر بھارت اور امریکہ سمندری خطے میں متحد ہوگئے تو چین کے لئے خطرہ پیدا ہوگا۔ اُن کے تجارتی مال کا اسی فیصد انڈین اوشین کے ذریعے ہی آتا ہے۔ اس لئے چین اس معاملے میں بھارت کو پیغام دینا چاہتا ہے اور لائن آف ایکچیول کنٹرول پر اپنے جارحانہ رویہ سے دباو میں رکھنا چاہتا ہے۔
سوال: انفراسٹکچر اور وسائل کے حوالے سے بھارت اس وقت لائن آف ایکچیول کنٹرول پر کتنا مضبوط ہے؟
جواب: ہر کسی کو یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ یہاں پر چین کو اپنے خطے میں زیادہ انفراسٹکچر میسر ہے۔ تاہم گزشتہ کئی سال کے دوران بھارت نے بھی اپنے انفراسٹکچر کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔ سڑکیں اور پُل بن رہے ہیں۔ مجموعی طور پر بھارت لائن آف ایکچیول کنٹرول پر مضبوط پوزیشن میں ہے۔ اگر آپ ماضی کا جائزہ لیں گے تو پتہ چلے گا کہ چین نے کئی بار بھارت پر حاوی ہونے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکا۔ سال 1967ء میں نتھو لا میں ہوئی دراندازی سے لیکر اب تک رونما ہوئے سارے واقعات میں چین کبھی بھی بھارت کو دباؤ میں لانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اس لئے ممکن ہے کہ اس بار وہ مختلف حربہ استعمال کریں گے۔ شاید وہ اس بار زیادہ جارحانہ رویہ کا مظاہرہ کریں گے۔ اگر ایسا ہوا تو صورتحال خطرناک ہوسکتی ہے۔