افغانستان پر طالبان کے قبضے (Taliban takeover) کے بعد افغان باشندے بڑی تعداد میں سرحد پار ایران میں داخل ہو رہے ہیں۔
اگست کے وسط میں طالبان کے اقتدار پر قبضے (Taliban takeover in mid-August) کے بعد سے ملک معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، لاکھوں افراد کے کام چھوٹ گئے اور وہ اتنے غریب ہو گئے کہ وہ اپنے خاندان کا پیٹ بھرنے میں بھی ناکام ہو رہے ہیں۔
نارویجن ریفیوجی کونسل (Norwegian Refugee Council)کے مطابق، پچھلے تین مہینوں میں 300,000 سے زیادہ لوگ غیر قانونی طور پر ایران میں داخل ہوئے ہیں اور مزید 4,000 سے 5,000 یومیہ کی شرح سے پہنچ رہے ہیں۔ افغانستان سے ایران جانے والا ہر کوئی ایک ہی وجہ بتاتا ہے۔
بیس سالہ نائب نے کہا کہ "یہاں کچھ نہیں ہے۔ کوئی کام نہیں ہے اور ہمارے خاندان بھوکے ہیں۔" نائب تارکین وطن کے ایک گروپ کے ساتھ ایرانی سرحد کے قریب ایک ویران علاقے میں ہے اور وہ جلد ہی ایران میں داخل ہو جائے گا۔
نائب کا کہنا ہے کہ "یہاں سے، میں ایران میں داخل ہو جاؤں گا۔ یہاں کچھ نہیں ہے، کوئی کام نہیں ہے۔ ہم لوگوں کو یہاں سے جانا پڑ رہا ہے کیونکہ ہم لوگ بہت غریب اور بدقسمت ہیں۔ میں نے کئی بار سرحد پار کرنے کی کوشش کی، لیکن باہر نکال دیا گیا، اور اب میں دوبارہ کوشش کررہا ہوں۔ کوئی کام نہیں ہے، مجھے جانا ہے، میرے گھر والے بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔"
رات کے وقت وہ اور اس کے بھائی ایک اسمگلر کے ساتھ رینگتے ہوئے سخت حفاظتی حصار میں ایران جانے کے لیے تیار ہیں۔
ایک افغان مہاجر خاتون نے کہا کہ "ہم ڈرتے ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں، وہ طالبان ہیں۔ میں نے ابھی شادی کی ہے اور کوئی کام نہیں ہے۔ اخراجات زیادہ ہیں اور ہمارا اپنا ذاتی گھر نہیں ہے۔"
دو دہائیوں سے اس کاروبار سے منسلک ہرات میں ایک اسمگلر (smuggler in Herat) خاتون نے بتایا کہ طالبان کے قبضے سے پہلے وہ ایک ہفتے میں 50 یا 60 افراد کو ایران لے جایا کرتی تھی، جس میں تقریباً سبھی مرد ہوتے تھے۔
خاتون اسمگلر کا کہنا ہے کہ "پہلے ہفتے میں 50-60 مسافر ہوتے تھے، لیکن اب زیادہ ہیں۔ تین ماہ قبل طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے میں نے تقریباً 500 پورے خاندانوں کو منتقل کیا ہے۔"
اگست کے بعد سے وہ ایک ہفتے میں تقریباً 300 لوگوں کو سرحد پار کراتی ہے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
وہ فی شخص تقریباً $400 (USD) کے برابر چارج کرتی ہے، لیکن صرف $16 ہی پیشگی رقم ہوتی ہے، باقی رقم تارکین وطن کو کام ملنے کے بعد ادا کرنا ہوتا ہے۔
بعد میں ادائیگی کا نظام ہرات میں عام ہے (The pay-later system is common in Herat)، یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہاں بہت زیادہ تارکین وطن ہیں۔