چین کے ووہان میں کورونا وائرس کی ابتداء کی تحقیقات کرنے والی ڈبلیو ایچ او ٹیم کے عہدیدار پیٹر بین ایماریک نے ووہان میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین کی کسی لیباریٹری سے لیک ہو کر وائرس کے پھیلنے کا خیال درست نہیں۔
کورونا وائرس ممکنہ طور پر انسانوں میں کسی جانور سے منتقل ہوا: عالمی ادارہ صحت خیال رہے کہ کورونا وائرس کی وبا 2019 کے اختتام پر سب سے پہلے ووہان میں ہی پھیلنا شروع ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ چینی لیباریٹری سے وائرس پھیلنے کے خیال پر مزید تحقیق کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ درست نہیں۔
یہ وہ خیال ہے جو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چند دیگر حلقوں کی جانب سے سامنے آیا تھا۔
کورونا وائرس ممکنہ طور پر انسانوں میں کسی جانور سے منتقل ہوا: عالمی ادارہ صحت انہوں نے مزید کہا کہ 'یہ وائرس ایک ایسے فرد سے پھیلنا شروع ہوا جو اس سے متاثر ہوا اور پھر وائلڈ لائف مارکٹ میں دیگر افراد میں اسے پھیلا دیا۔ یہ فرد ممکنہ طور پر مارکٹ کا تاجر یا وہاں آنے والا ہوسکتا ہے مگر وہ اس سے کسی پروڈکٹ سے متاثر ہوا ہوگا'۔
انہوں نے ووہان کی ہیوانان مارکٹ کا حوالہ دیا تھا جس کے بارے میں اکثر افراد سوچتے ہیں کہ کووڈ کے اولین مریضوں کا تعلق یہیں سے تھا۔
ڈبلیو ایچ او کے عہدیدار نے کہا کہ 'ہمارے خیال میں سب سے زیادہ امکان منجمد جانوروں کا ہے، ان میں سے کچھ اقسام میں اس طرح کے وائرسز کی موجودگی کا امکان ہوتا ہے'۔
عالمی ادارہ صحت کا یہ اہم ترین مشن جنوری سے ووہان میں وائرس کی ابتدا کی جانچ پڑتال کا کام کر رہا ہے۔
کورونا وائرس کی ابتداء کی تحقیقات کرنے والی ڈبلیو ایچ او ٹیم کے عہدیدار پیٹر بین ایماریک اس تحقیقاتی مشن کی جانب سے 2019 کے آخر میں کووڈ سے متاثر افراد کے سامنے آنے سے قبل لاکھوں مریضوں کے نمونوں کا تجزیہ بھی کیا گیا۔
پیٹر بین ایماریک نے کہا کہ 'ہم نے 2019 کے دوران ممکنہ طور پر علم میں نہ آنے والے دیگر کیسز کی دریافت کے لیے ایک تفصیلی تحقیق بھی کی مگر ہم دسمبر سنہ 2019 سے قبل کسی بڑی وبا کے شواہد ووہان یا کسی اور جگہ تلاش نہیں کرسکے'۔
یہ بھی پڑھین: میانمار: فوجی تختہ پلٹ کے خلاف مسلسل احتجاج، متعدد شہروں میں کرفیو نافذ
اس تحقیقاتی ٹیم میں 17 بین الاقوامی اور 17 چینی ماہرین شامل ہیں اور وہ ایسے سراغ تلاش کر رہے ہیں جس سے علم ہوسکے کہ یہ نیا کورونا وائرس ووہان میں تیزی سے پھیل کر دنیا بھر میں کیسے پہنچ گیا۔
وائرس کے ذریعے کی تلاش سے مستقبل میں اس طرح کے وائرسز کو وبا کی طرح پھیلنے سے روکنا ممکن ہوسکے گا۔
اس تحقیقاتی مشن میں شامل افراد 3 گروپس میں کام کر رہے ہیں، جو بیماری کے پھیلاؤ، وبا، ان کو پھیلانے والے جانوروں اور ماحول اور وائرس کے مالیکیولر ارتقا پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
تحقیق میں جینیاتی سیکونس ڈاٹا کو استعمال کر کے مریضوں، جنگلی حیات اور ماحول کے درمیان تعلق کو جاننے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ویسے تو مانا جاتا ہے کہ یہ وائرس چمگادڑوں سے انسانوں تک پہنچا، تاہم ایسا کیسے ہوا یہ فی الحال معلوم نہیں۔
تاہم کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ ووہان انسٹی ٹوٹ آف وائرولوجی میں چمگادڑوں سے پھیلنے والے کورونا وائرسز پر کام ہو رہا ہے اور یہ نیا وائرس وہاں سے کسی طرح باہر نکلا۔
ڈبلیو ایچ او مشن کے اراکین نے گذشتہ ہفتے اس لیباریٹری کا دورہ کیا تھا اور وہاں کے ماہرین سے بات کی تھی۔
چینی حکام نے وبائی امراض کی ممکنہ وجوہات کے بارے میں معلومات پر سخت گرفت رکھی ہے جس کی وجہ سے اب تک دنیا بھر میں 105 ملین سے زیادہ افراد اس وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں اور 22 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔