چین نے بدھ کے روز طالبان کے رہنما ملا عبد الغنی برادر سے ملاقات کی اور افغانستان میں ایک اہم فوجی اور سیاسی قوت کے طور پر شدت پسند گروپ کی تعریف کی۔ اس کے ساتھ ہی چین نے طالبان سے "تمام عسکری گروہوں سے رابطہ توڑنے" کے لئے کہا، خاص طور پر شنجیانگ کے ایغور مسلم انتہا پسند گروپ ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) سے رابطے توڑنے کے لئے کہا۔
ای ٹی آئی ایم کے دوبارہ متحد ہونے کے خدشات کے درمیان چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے تیانجن میں ملا برادر سے ملاقات کی۔ چین کا خیال ہے کہ شنجیانگ صوبے اور ملک کے دیگر علاقوں میں ہونے والے تمام پرتشدد حملوں کے پیچھے ای ٹی آئی ایم کا ہاتھ ہے۔ ملاقات کے دوران یی نے برادر سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک مثبت امیج اور ایک وسیع اور جامع سیاسی ڈھانچہ تشکیل دیں جو افغانستان کی قومی حقیقت کے مطابق ہو۔
ملا عبد الغنی برادر کی سربراہی میں طالبان کے ایک وفد نے بدھ کے روز چین کا اچانک دورہ کیا اور چینی وزیر خارجہ وانگ یی سے بات چیت کی۔ مذاکرات کے دوران طالبان نے بیجنگ کو ایک قابل اعتماد دوست قرار دیا اور یقین دہانی کرائی کہ یہ گروپ کسی کو بھی افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد طالبان اور چین کے مابین یہ پہلا اجلاس ہے۔ طالبان نے سرکاری افواج کے زیر قبضہ بیشتر علاقے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے، جس سے چین کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا ہے کہ مشرقی ترکستان اسلامی تحریک (ای ٹی آئی ایم)، جو اس کے غیر مستحکم صوبہ شنجیانگ سے تعلق رکھنے والا ایک عسکریت پسند گروپ ہے، افغان سرحد کے ذریعے دراندازی کرسکتا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے میڈیا بریفنگ میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ برادر کی قیادت میں ایک وفد بیجنگ کے قریب بندرگاہی شہر تیآنجن میں وانگ سے ملا۔