عراق میں موصل شہر کے جنوب میں واقع 'حمام العلیل' کیمپز میں ہزاروں مہاجرین آباد ہیں۔
بے گھرہونے والے ان افراد کے لیے یہاں زندگی گذارنا انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
ان بے گھر خاندانوں میں وہ بچے بھی شامل ہیں، جن کا تعلق شدت پسند تنظیم 'داعش' سے تھا۔
داعش میں شمولیت اختیار کرنے والے عسکریت پسند کی اہلیہ ام خطاب کہتی ہیں کہ انہیں اپنے شوہر کے بارے میں فی الحال کوئی جانکاری نہیں ہے۔ وہ گذشتہ 3 برسوں سے حمام العیل کیمپ میں اپنے 5 بچوں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ اور انہیں تعلیم دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔
داعش میں شامل عسکریت پسندوں کے بچوں کی زندگی ان کا کہنا ہے کہ ان کے بچے روزانہ اسکول جاتے ہیں اور یوں ہی واپس لوٹ آتے ہیں۔ ان کے پاس ڈاکیومینٹز نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کا داخلہ نہیں لیا جاتا ہے۔ بچے اسکول کے لیے روتے ہیں۔ وہ پڑھنا چاہتے ہیں۔ لیکن انہیں کتابیں نہیں دی جاتی ہیں۔
ایک دوسری خاتون ام قیصر کا کہنا ہے کہ ان کے بچے کے پاس برتھ سرٹیفیکیٹ ہے۔ اس کے باوجود آئی ڈی کارڈ جاری نہیں کیا جاتا ہے۔ انتظامیہ کے لوگ کہتے ہیں کہ آئی کارڈ ان کے شوہر سے خُلا لیے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا۔
عسکریت پسندوں کے بچوں کو تعلیمی سہولیات کے علاوہ ملک میں سرکاری طبی سہولیات فراہم کرنے سے بھی منع کر دیا گیا ہے۔
ہلاک ہونے والے یا حکومت کو مطلوب داعش کے عسکریت پسندوں کی بیویاں اپنے بچوں کے اندراج اور تعلیم کے لیے جد وجہد کر رہی ہیں۔
امر کوثر کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی بیٹی کے لیے آئی ڈی بنوانے کے لیے خود کی آئی ڈی رینیو کرانا پڑے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ کوئی ایسا دستاویزپیش کریں، جس میں شوہر سے ان کا کوئی رشتہ باقی نہ رہا ہو تبھی آئی ڈی جاری کی جا سکتی ہے۔
سن 2014 میں عراق کے کچھ علاقوں پر قبضے کے دوران ان بچوں کے والد 'داعش' میں عسکریت پسند کے طور پر شامل ہو گئے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بیشتر بچوں کو عراقی شناخت اور قومیت کارڈ سے محروم کردیا گیا ہے۔ ساتھ ہی عراق کے سرکاری اسکولز میں ان بچوں کے داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
عراقی شہرت کے تمام حقوق حاصل کرنے کے لیے انہیں ایسے دستاویزات پیش کرنے ہوں گے، جس سے ان خواتین کے رشتے ان کے شوہروں سے ختم ہو گئے ہوں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں انہیں اور ان کی آئندہ نسلوں کو شہریت کے تمام حقوق سے محروم رکھا جائے گا۔
خیال رہے کہ دستاویزات نہ رکھنے والے بچے امدادی تنظیموں کے زیر انتظام اسکولز میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں، تاہم انہیں عراقی اسکولز میں داخلہ نہیں مل سکتا ہے۔
غور طلب ہے کہ مختلف ریفیوجی کاونسلز مثلا 'نارویجین ریفیوجی کاونسل' کے علاوہ 'ڈینش ریفیوجی کونسل' اور 'انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی' کے ذریعہ تیار کردہ رپورٹ کے مطابق تقریبا 80 ہزار خاندان عدم دستاویزات کے سبب متاثر ہیں۔