پاکستان میں توہین رسالت کے ایک ملزم کو عدالت میں جج کے سامنے گولی مار دی گئی، جس کی موقع پر ہی موت ہو گئی۔
قاتل کو کمرہ عدالت سے گرفتار کر لیا گیا۔ یہ حادثہ ایڈیشنل سیشن جج شوکت اللہ کی عدالت میں پیش آیا۔
پاکستانی میڈیا نے مقتول کا نام طاہراحمد نسیم بتایا ہے جن پر عدالتی ریکارڈ کے مطابق توہین رسالت کا مقدہ دو برسوں سے چل رہا تھا۔
پولیس کے مطابق جب طاہر احمد کو جیل سے عدالت میں پیش کرنے کے لیے لایا گیا تو وہاں موجود لوگوں کے مطابق ایک نوجوان آیا اور طاہر احمد سے اس نے بحث شروع کر دی۔ اس کے بعد اُس نے کمرۂ عدالت میں ہی طاہر احمد پر فائرنگ کر دی۔
پاکستانی میڈیا کے مطابق قتل کرنے والا ایک نو عمر لڑکا ہے جس نے کہا کہ اسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں آئے تھے اور انہوں نے کہا کہ اس شخص کو قتل کردو۔ یہ انکا حکم تھا۔
سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس پشاور منصور امان نے بی بی سی کو بتایا کہ حملہ آور کا نام فیصل ہے اور اس کا تعلق افغانستان سے ہے۔ اس بابت تفتیشی افسر پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔ قبل ازیں پولیس نے حملہ آور کا نام خالد بتایا تھا۔
کچھ سوشل میڈیا پوسٹوں میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ مقتول احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھتا تھا۔ بی بی سی کے مطابق مقتول احمدی گھرانے میں پیدا ضرور ہوا تھا لیکن وہ احمدیت سے تعلق نہیں رکھا تھا۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے جاری کردہ اکثر مشاہداتی نوٹس میں کہا جاتا ہے کہ ایسے معاملات کا بکثرت تعلق ذاتی دشمنیوں اور لڑائیوں سے ہوتا ہے۔ ان کا مذہب سے کم ہی تعلق ہوتا ہے۔جبکہ توہینِ مذہب کا صرف الزام لگنا، یا ملزم کا دفاع کرنا ہی کسی کے ہدف بن جانے کے لیے کافی ہے۔