اردو

urdu

ETV Bharat / international

بھارت کو شنگھائی تعاون تنظیم کی رُکنیت کی قیمت چکانی پڑے گی - undefined

اس مضمون کو وشنو پرکاش نے لکھا ہے جو سابق سفیر برائے جنوبی کوریا اور کینڈا رہ چکے ہیں اور انہوں نے وزارت ِ خارجہ کے ترجمان کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی ہیں۔ موصوف خارجی امور کے تجزیہ کار اور ایک مصنف بھی ہیں۔

Article on invitation to Pak for SCO summit
بھارت کو شنگھائی تعاون تنظیم کی رُکنیت کی قیمت چکانی پڑے گی

By

Published : Jan 29, 2020, 9:07 PM IST

Updated : Feb 28, 2020, 10:50 AM IST

بھارت اس سال کے آخر میں میں منعقد ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے 19ویں سربراہ اجلاس کی میزبانی کرئے گا۔وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس ضمن میں 16جنوری کو ایک بیان میں کہا کہ ’’شنگھائی تعاون تنظیم کی طے شدہ روایات اور ضوابط کے مطابق اس اجلاس میں تمام آٹھ رُکن ممالک کے علاوہ چار مبصر ممالک اور دیگر بین الاقوامی مذاکراتی شرکاء کو دعوت دی جائے گی ۔‘‘ اس بیان کے نتیجے میں مبصرین کو حیرانگی ہوئی کیوں کہ اس کے مطابق بھارت اس اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان کو بھی مدعو کرے گا ،جو شنگھائی تعاون تنظیم کا ایک رُکن ہے۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان کے بارے میں بھارت کا طے شدہ موقف یہ ہے کہ بامعنی بات چیت کو بحال کرنے کے لئے پاکستان کو پہلے اپنی سر زمین پر سرگرم دہشت گرد گروپوں کے خلاف’ یقینی ، ناقابل واپسی اور قابل تصدیق ‘کارروائی کرنی ہوگی ۔کیا بھارت نے اپنے اس موقف کو ترک کیا ہے؟اگر ہاں تو ایسا کرنے کے لئے اسکی کیا مجبوریاں تھیں؟ کیا وزیر اعظم عمران خان اس اجلاس میں شرکت کے لئے بھارت آئیں گے؟ اس طرح کے کئی سوالات گشت کررہے ہیں۔ان سوالات کا جواب دینے کے لئے سیاق وسباق کو سمجھنا ہوگا۔


دنیا بھر میں پالیسی سازوں کو اس وقت کئی مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں ایک ناقابل بھروسہ امریکا کے ڈانواڈول صدر ٹرمپ ہیں، جن کے پاس سفارتی آداب اور ضروریات کو پورا کرنے کے لئے درکار صبر نہیں ہے۔ بلکہ اُن کی نگاہیں اس وقت اپنے ملک کے ووٹ بینک پر ٹکی ہیں اور اس مقصد کے لئے وہ اپنے مخالفین اور حلیفوں کے معاملے میں ہر قدم عجلت میں اٹھا رہے ہیں۔دوسرا برطانیہ کا یورپی یونین چھوڑنے کا فیصلہ ، جو 31جنوری کو یقینی ہے۔ اس کی وجہ سے کئی جواب طلب سولات پیدا ہوگئے ہیں ۔ جیسے کہ کیا برطانیہ کے اس مجوزہ اقدام کے نتیجے میں یورپی یونین مضبوط ہوگی یا کمزور ؟کیا اس کی وجہ سے یورو کرنسی کی قدر گھٹ جائے گی یا بڑھ جائے گی ؟اسکی وجہ سے یورپی یونین کی اقتصادیات پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟ اور شمالی اوقیانوسی معاہدے کی تنظیم یعنی نیٹو(NATO) پر کیا فرق پڑے گا؟ نیٹو کے سیکر ٹری جنرل جینزسٹول ٹین برگ نے اس بارے میں کہا ہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کی وجہ سے نیٹو کے دفاعی بجٹ کا 80فیصد یورپی یونین سے باہر کے ممالک سے حاصل ہوگا۔


تیسرا یہ کہ چین ، جس کے غیر معمولی عروج ، ہوس اور جارحیت کی وجہ سے اس خطے اور اس سے باہر قائم شدہ جغرافیائی حکمت عملیاں تہہ و بالا ہو کر رہ گئی ہیں۔گزشتہ دو سو سال کے دوران کسی بھی ملک کی بحری طاقت اس قدر نہیں رہی ہے ، جتنی اس وقت چین کی ہے۔چین کی وجہ سے اسکے کئی پڑوسی ممالک بشمول جاپان ، ویت نام ، فلپائین اور بھارت مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں۔جنوبی چین کے ایک وسیع سمندری خطے پر اس کا قبضہ ہے۔اسکے علاوہ وہ کراچی ، مشرقی افریقہ اور کئی دیگر ممالک میں ملٹری بیس قائم کرنے میں مصروف ہے۔وہ زرمبادلہ کے ذخائر سے کھیل رہا ہے اور بیلٹ اینڈ روڑ( اقتصادی راہداری ) کی آڑ میں کئی ممالک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا چکا ہے۔


بھارت واحد ملک ہے جو چین کے قریبی حلیف ملک یعنی پاکستان کی دہشت گردی سے نبرد آزما ہے۔دونوں ملک مشترکہ ہدف یعنی بھارت کو ترقی سے روکنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ بھارت مسلسل 60سال سے صبر و تحمل کے ساتھ اسلام آباد کو بات چیت کے ذریعے تمام مسائل کو حل کرنے اور پر امن طریقے سے ایک ساتھ رہنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔تاہم بھارت نے اب پاکستان کی ہٹ دھرمی کو دیکھتے ہوئے یہ طے کیا ہے کہ دہشت گردی اور بات چیت ایک ساتھ نہیں چل سکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وزارت خارجہ کے ترجمان کے16جنوری کے بیان سے کئی لوگ حیران رہ گئے ہیں۔


یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین کی سربراہی والی شنگھائی تعاون تنظیم سال 2001میں قائم کی گئی تھی۔اس میں روس ، اُزبکستان ، کزاخستان ، تاجکستان اور کرگیستان بھی شامل ہیں۔اسے نیٹو کے جواب میں توازن کے لئے قائم کیا گیا تھااور اس کا مقصد رُکن ممالک کے درمیان سیاسی ، دفاعی ،اقتصادی اور تمدنی تعاون پیدا کرنا تھا۔روس کی حمایت کے نتیجے میں بھارت 2017ء میں شنگھائی تعاون تنظیم کا رُکن بن گیا۔جبکہ اس میں پاکستان کی رکنیت چین کے اصرار کا نتیجہ ہے۔


بھارت اب اس سال کے آخر میں پہلی بار اس اجلاس کی میزبانی کررہا ہے۔بھارت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ پاکستان کو مدعو کرے ۔برعکس صورت میں اجلاس منسوخ ہوگا۔بھارت شنگھائی تعاون تنظیم کے حوالے ایک تعمیری اور مثبت رول ادا کرنے کا عزم رکھتا ہے اور وہ اس میں کوئی غیر ضروری رکائوٹ پیدا نہیں کرنا چاہتا ہے۔بھارت وسط ایشیائی ممالک میں چین کی مداخلت کو دوررکھنے کیلئے روس کے ساتھ گہری شراکت داری کا بھی خواہاں ہے۔ اس مصنف کو لگتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان بھارت کے دورے کا یہ موقعہ نہیں گنوائے گا۔چین کی جانب سے بار بار کشمیر مسئلے کو اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل میں اٹھانے کا مقصد بھارت کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لئے مجبور کرنا ہے۔جبکہ پاکستان ، جس کی گردن پر فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی تلوار لٹک رہی ہے، دُنیا کو گمراہ کرتے ہوئے ایف اے ٹی ایف سے بچنے اور اپنی اقتصادی حالت بہتر بنانے کی کوشش کررہا ہے۔یہ مقصد پورا کرنے کے بعد وہ پھر وہی کچھ کرے گا ، جس میں وہ ماہر ہے ۔ یعنی بھارت کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیاں جاری رکھے گا۔ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کو قبل از وقت بحال کرنا اور اسے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں مدعو کرنادر اصل وہ قیمت ہے ،جو بھارت کو شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے لئے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔تاہم بھارت کے لئے یہ سیاسی اور اقتصادی قیمت رکنیت کے فوائد کے مقابلے میں زیادہ نہیں ہے۔

Last Updated : Feb 28, 2020, 10:50 AM IST

For All Latest Updates

TAGGED:

ABOUT THE AUTHOR

...view details