بھارت اس سال کے آخر میں میں منعقد ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے 19ویں سربراہ اجلاس کی میزبانی کرئے گا۔وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس ضمن میں 16جنوری کو ایک بیان میں کہا کہ ’’شنگھائی تعاون تنظیم کی طے شدہ روایات اور ضوابط کے مطابق اس اجلاس میں تمام آٹھ رُکن ممالک کے علاوہ چار مبصر ممالک اور دیگر بین الاقوامی مذاکراتی شرکاء کو دعوت دی جائے گی ۔‘‘ اس بیان کے نتیجے میں مبصرین کو حیرانگی ہوئی کیوں کہ اس کے مطابق بھارت اس اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان کو بھی مدعو کرے گا ،جو شنگھائی تعاون تنظیم کا ایک رُکن ہے۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان کے بارے میں بھارت کا طے شدہ موقف یہ ہے کہ بامعنی بات چیت کو بحال کرنے کے لئے پاکستان کو پہلے اپنی سر زمین پر سرگرم دہشت گرد گروپوں کے خلاف’ یقینی ، ناقابل واپسی اور قابل تصدیق ‘کارروائی کرنی ہوگی ۔کیا بھارت نے اپنے اس موقف کو ترک کیا ہے؟اگر ہاں تو ایسا کرنے کے لئے اسکی کیا مجبوریاں تھیں؟ کیا وزیر اعظم عمران خان اس اجلاس میں شرکت کے لئے بھارت آئیں گے؟ اس طرح کے کئی سوالات گشت کررہے ہیں۔ان سوالات کا جواب دینے کے لئے سیاق وسباق کو سمجھنا ہوگا۔
دنیا بھر میں پالیسی سازوں کو اس وقت کئی مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں ایک ناقابل بھروسہ امریکا کے ڈانواڈول صدر ٹرمپ ہیں، جن کے پاس سفارتی آداب اور ضروریات کو پورا کرنے کے لئے درکار صبر نہیں ہے۔ بلکہ اُن کی نگاہیں اس وقت اپنے ملک کے ووٹ بینک پر ٹکی ہیں اور اس مقصد کے لئے وہ اپنے مخالفین اور حلیفوں کے معاملے میں ہر قدم عجلت میں اٹھا رہے ہیں۔دوسرا برطانیہ کا یورپی یونین چھوڑنے کا فیصلہ ، جو 31جنوری کو یقینی ہے۔ اس کی وجہ سے کئی جواب طلب سولات پیدا ہوگئے ہیں ۔ جیسے کہ کیا برطانیہ کے اس مجوزہ اقدام کے نتیجے میں یورپی یونین مضبوط ہوگی یا کمزور ؟کیا اس کی وجہ سے یورو کرنسی کی قدر گھٹ جائے گی یا بڑھ جائے گی ؟اسکی وجہ سے یورپی یونین کی اقتصادیات پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟ اور شمالی اوقیانوسی معاہدے کی تنظیم یعنی نیٹو(NATO) پر کیا فرق پڑے گا؟ نیٹو کے سیکر ٹری جنرل جینزسٹول ٹین برگ نے اس بارے میں کہا ہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کی وجہ سے نیٹو کے دفاعی بجٹ کا 80فیصد یورپی یونین سے باہر کے ممالک سے حاصل ہوگا۔
تیسرا یہ کہ چین ، جس کے غیر معمولی عروج ، ہوس اور جارحیت کی وجہ سے اس خطے اور اس سے باہر قائم شدہ جغرافیائی حکمت عملیاں تہہ و بالا ہو کر رہ گئی ہیں۔گزشتہ دو سو سال کے دوران کسی بھی ملک کی بحری طاقت اس قدر نہیں رہی ہے ، جتنی اس وقت چین کی ہے۔چین کی وجہ سے اسکے کئی پڑوسی ممالک بشمول جاپان ، ویت نام ، فلپائین اور بھارت مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں۔جنوبی چین کے ایک وسیع سمندری خطے پر اس کا قبضہ ہے۔اسکے علاوہ وہ کراچی ، مشرقی افریقہ اور کئی دیگر ممالک میں ملٹری بیس قائم کرنے میں مصروف ہے۔وہ زرمبادلہ کے ذخائر سے کھیل رہا ہے اور بیلٹ اینڈ روڑ( اقتصادی راہداری ) کی آڑ میں کئی ممالک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا چکا ہے۔