13 اگست کو دوپہر کا وقت تھا، جب 23 سالہ ہیلتھ ورکر حمیرا نوروزی نے صوبہ ہلمند کے شہر لشکر گاہ میں طالبان کے داخلے کی خبر سنی اور انہوں نے فوراً اپنی لائبریری بند کر دی۔ حمیرا نوروزی لشکر گاہ میں خواتین کے لیے لائبریری چلاتی تھیں۔ لیکن جب وہ اگلے دن اپنے بھائی کے ساتھ کتابیں گھر لینے کے لیے واپس آئی تو انہوں نے دیکھا کہ تمام کھڑکیوں کو توڑ دیا گیا ہے اور کچھ کتابوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
افغانستان کا جنوبی صوبہ ہلمند طالبان کا گڑھ رہا ہے اور یہ صوبہ کبھی بھی خواتین کے کام کرنے کے لیے آسان مقام نہیں رہا ہے۔ لیکن نوروزی نے خواتین کے لیے واحد لائبریری شروع کرنے کے لیے کتابوں کی خریداری کی اور اس کے لئے انہوں نے مقامی ہسپتال میں نرس کی حیثیت سے اپنی تنخواہ سے 48،000 افغانی (530 ڈالر) بچاکر خرچ کیا۔
انہوں نے اپنی لائبریری کا نام جاپانی امدادی کارکن ڈاکٹر تیتسو ناکامورا کے نام پر رکھا، 2019 میں نامعلوم مسلح افراد کے ہاتھوں مارے جانے سے قبل تیتسو نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ننگرہار صوبے میں انسانی ہمدردی کے منصوبوں پر صرف کیا۔
نوروزی کی 800 سے زائد کتابوں کا مجموعہ خواتین کے حقوق سے لے کر بچوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ اسلامی اور ثقافتی کتابوں پر مشتمل ہے، جو کہ دری اور پشتو دونوں زبانوں میں ہے۔
نوروزی ایک کتاب کے لیے قارئین سے 10 افغانی لیتی تھیں، جو پندرہ دنوں کے لیے کتاب رکھ سکتے تھے۔
ان کی اس پہل نے بہت سی خواتین میں کتابیں پڑھنے میں دلچسپی پیدا کی۔ لیکن ان کا دل اس وقت ٹوٹ گیا جب طالبان کے قبضے کے بعد نوروزی کی چھوٹی سی لائبریری کو نقصان پہنچا اور اسے بند کر دیا گیا۔
نوروزی کا کہنا ہے کہ جو چیز اس کو سب سے زیادہ پریشان کرتی ہے وہ یہ کہ وہ نہیں جانتی کہ وہ لائبریری کو دوبارہ شروع کرپائیں گی یا نہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ "ہمارے معاشرے کو اب ہماری ضرورت ہے، ایسے وقت میں نہیں جب سب کچھ مستحکم ہو ... ابھی خواتین کو ہماری ضرورت ہے تاکہ ہم انہیں پڑھنے کے لیے کتاب دے سکیں جب اسکولوں کے دروازے ان کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔"
نوروزی کا تعلق افغانستان میں اقلیتی شیعہ برادری سے ہے اور وہ صرف دو سال کی تھی جب ان کا خاندان غزنی سے ہلمند صوبہ منتقل ہو گیا تھا۔
تمام خطرات اور چیلنجز کے باوجود وہ اب بھی اپنے ملک میں رہنے اور اپنے لوگوں کے لیے کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں، خاص طور پر اپنے معاشرے کی خواتین کے لیے کام کرنا چاہتی ہیں۔