کولمبو: سری لنکا کے طاقتور راجا پکشے خاندان کو پانچ اگست کے انتخابات میں غیر معمولی فتح حاصل ہوئی۔ پکشے خاندان کو 225 ارکان پر مشتمل پارلیمنٹ میں 145 نشستیں ملیں۔ اس انتخابی کامیابی کا حصول پکشے خاندان کی جانب سے اپنا سیاسی ایجنڈا پایہ تکمیل پہنچانے کی سمت میں پہلا قدم تھا۔
سری لنکا پڈوجانہ پیرامونا (ایس ایل پی پی )، جو عملی طور پر راجا پکشوں کی ایک خاندانی تنظیم ہے، کو بھر پور عوامی مینڈیٹ حاصل ہوگیا ہے۔اس طرح سے اب اس خاندان کو سابق انتظامیہ کی جانب سے کئے گئے بعض اقدامات کو واپس لینے اور ملک میں کئی طرح کی اصلاحات لانے کا موقعہ ہاتھ لگ گیا ہے، جن میں آئین کی 19 ویں ترمیم کو کالعدم کرنا، سب سے اہم ہے ۔
سری لنکا میں گوٹا بھایا راجا پکشے صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔اب اُن کے بڑے بھائی ماہندا کل یعنی 9 اگست کو ملک کے نئے وزیر اعظم کے بطور عہدہ سنبھالا ہے۔ نئی کابینہ جمعہ، یعنی 14فروری کو معروف بودھ مندر کے رائل آڈینس ہال میں حلف لے گی جو سری لنکا کے آخری راجا کانڈیا کا پیلس بھی رہا ہے ۔ملک کی نئی کابینہ 26 سے زیادہ اراکین پر مشتمل نہیں ہوگی۔ جبکہ دیگر تین درجن نائب اور جونیئر منسٹرز بھی نئی انتظامیہ کا حصہ ہونگے۔ نئی سرکار کے بنیادی طور پر دو اہداف ہیں۔ ایک آئینی اصلاحات کرنا اور دوسرا کووِڈ19 کی وجہ سے تباہ شدہ معیشت کو ٹھیک کرنا۔
سری لنکا کے آئین میں 19 ویں ترمیم کے نتیجے میں حکومت کے وزراء کونسل میں 45 اراکین تک کو شامل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن حکمران جماعت سری لنکا پڈوجانہ پیرامونا (ایس ایل پی پی ) نے انتخابی مہم کے دوران ہی 19 ویں ترمیم کو کالعدم کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ایسا کرکے در اصل سری لنکا پڈوجانہ پیرامونا (ایس ایل پی پی) کابینہ کو مختصر رکھنا چاہتی ہے۔ تاکہ اتحادی جماعتوں کے ارکان کو کابینہ میں شامل کرنے کی گنجائش نہ رہے۔ اس طرح سے فیصلہ سازی کا سارا اختیار پکشے خاندان کے ہاتھوں میں ہی رہے گا۔ چونکہ اپوزیشن تو پہلے ہی کمزور ہے اس لئے نئی سرکار میں حکمران سری لنکا پڈوجانہ پیرامونا (ایس ایل پی پی )آسانی سے اپنے من پسند فیصلے نافذ کرنے کی پوزیشن میں ہوگی۔
خاندانی راج
سری لنکا پڈوجانہ پیرامونا (ایس ایل پی پی ) کے مطابق راجا پکشے خاندان کی سب سے بڑی قوت یہ ہے کہ وہ جمہوریت کی آڑ میں رائے دہندگان کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ اس نے رائے دہندگان کو یقین دلایا کہ وہ اکثریت اور قومی مفادات کی خدمت کرسکتا ہے۔ سری لنکا کے تازہ انتخابی نتائج عالمی سطح پر پائے جانے والے قوم پرستی کے رجحان کی عکاسی کرنا ہے۔ کیونکہ اب ہر جگہ قوم پرستی اور قومی مفاد کو اولین ترجیح دی جارہی ہے۔ سری لنکا کے بارے میں ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں مذہبی تقسیم بڑے پیمانے پر موجود ہے اور اس لئے ایک خاندان نے اکثریتی جذبات کو سہارے اپنے حق میں ماحول پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ نتیجے کے طور پر اسے سیاسی بالادستی حاصل ہوگئی۔
سری لنکا کے قومی انتخابات کے حوالے سے سب سے بڑی اہم بات یہی رہی ہے کہ اس میں قوم پرستی کے جذبات تفرقہ بازی حاوی رہی ہے۔ ماسوائے 1977ء کے انتخابات، جس میں یونائیٹڈ نیشنل پارٹی کو بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل ہوئی تھی، باقی لگ بھگ سارے انتخابات میں سری لنکا میں اکثریتی رائے کی بنا پر حکومتیں قائم ہوتی رہی ہیں۔ لیکن سال 2020ء کے انتخابات میں الٹرا نیشنلزم اور 2019ء کے مسیحی تہوار ایسٹر پر بم دھماکوں کے حوالے سے سیکورٹی خدشات کی بنیاد پر رائے دہندگان نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ اسی وجہ سے سری لنکا پڈوجانہ پیرامونا (ایس ایل پی پی) کو شاندار فتح نصیب ہوئی۔
خاندانی راج کی طرف پیش قدمی
وزیر اعظم کے عہدے کے اُمیدوار ماہندا راجاپکشے اگست کے انتخابات میں ایک کامیاب سیاسی لیڈر کے بطور ابھر گئے۔ ان کے حق میں اب تک کے سب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ اب اس جزیرہ نما ملک میں ماہندا راجا پکشے سب سے مشہور سیاسی شخصیت قرار پاچکے ہیں۔
اس بار راجا پکشے خاندان کے پانچ اراکین انتخابات جیت کر آئے ہیں۔ ان میں ماہندا راجا پکشے( شمال مغربی علاقے کرونیگلا حلقہ انتخاب سے جیت کر آگئے)، اُن کے بیٹے نامال ( جنوب میں اُن کے آبائی علاقے ہام بانٹوٹو حلقہ سے کامیاب ہوکر آئے)، بھتیجے شاشیدرا راجا پکشے ( جنوب مشرقی علاقے میں واقع حلقہ انتخاب سے کامیاب قرار پا گئے) اور نپونا راجا پکشے (جنوب میں واقع ماترا حلقہ انتخاب سے فتح یاب ہوئے) کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس کے علاقہ ماہندا اور اس کے بڑے بھائی چامال ( شاشیدرا راجا پکشے کے والد) بھی ان انتخابات میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
اس کے علاوہ پکشے خاندان کے ماہندا راجا پکشے کے چھوٹے بھائی گوٹا بھایا راجا پکشے ہیں، جو گزشتہ سال نومبر میں ہی ملک کے صدر کے بطور منتخب ہوگئے تھے۔ پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ باسل راجا پکشے کو امکانی طور پر پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے ایس ایل پی پی کی طرف سے نامزد کیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو وہ اداکار سے سیاست دان بنے جین تھا کیٹا گوڈے کی جگہ لیں گے۔