چوبیس گھنٹوں کے عرصے میں افغانستان کے پانچ صوبوں میں ہونے والے پرتشدد حملوں کے دوران کم از کم 20 عام شہری ہلاک اور 34 دیگر زخمی ہوئے ہیں، حالانکہ یکم مئی سے ہی امریکی اور نیٹو فورسز افغانستان سے لوٹ رہی ہیں۔
ایک خبر رساں ادارے کے مطابق ہفتے کے روز پارواں علاقے میں ایک یونیورسیٹی کے لکچرر اور ملازمین کو لے جانی والی بس کو نشانہ بنا کر آئی ای ڈی دھماکہ کیا گیا۔ اس دھماکے میں میڈیسین فیکلٹی کے لچرر میوند فاروق نجرابی سمیت چار افراد ہلاک ہو گئے۔ اس دوران مزید 17 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
نجرابی کے رشتے دار معین میرزادہ نے کہا کہ "روزانہ تشدد سے ہمارے نوجوان، مذہبی اسکالرز اور فوجی ہلاک ہو رہے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہم ایک خطرناک بحران کا سامنا کریں گے۔"
اتوار کے روز صوبہ ننگرہار کے ضلع شیرزاد میں ایک دھماکے میں دو عام شہری ہلاک اور ایک زخمی ہوگئے۔
دریں اثنا افغانستان کے شمال مشرقی صوبے کاپیسا میں ایک مکان پر مارٹر گولہ باری سے کم از کم 10 افراد ہلاک اور 15 زخمی ہوگئے ہیں۔ گھر میں ایک شادی کی تقریب جاری تھی تبھی مورٹار کے شیل گھر سے ٹکرائے۔
ایک خبر رساں ایجنسی کی خبر کے مطابق کاپیسا پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان نے مورٹار فائر کیا تھا، تاہم طالبان نے اس دعوے کو مسترد کردیا ہے۔