انسداد پولیو پروگرام کی تنظیم نو اور فنڈنگ میں کٹوتیوں کے باعث پاکستان انسداد پولیو مہم کے کم از کم 11 ہزار صحت کارکن جون 2020 سے اپنی ملازمت سے ہاتھ دو بیٹھے ہیں۔
عرب نیوز نے پولیو کے خاتمے کے لیے ملک کے نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے کوآرڈینیٹر رانا محمد صفدر کے حوالے سے رپوٹ کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کارکنان میں زیادہ تر خواتین شامل ہیں جو سندھ اور خیبر پختونخوا کے صوبوں میں اپنے فرائض سرانجام دے رہی تھیں۔ اس کے علاوہ یہ کارکنان کورونا وائرس کے خلاف جاری جنگ میں بھی فرائض انجام دے رہے تھے۔
پاکستان میں رواں برس اب تک پولیو وائرس کے 64 معاملات رپورٹ ہوئے ہیں، خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ 22 ریکارڈ ہوئے ہیں۔ اس کے بعد سندھ (21) ہے۔
رانا محمد صفدر نے بتایا کہ پولیو عملے میں ملازمین کی تعداد کو کم کرنے کا فیصلہ گزشتہ برس کے آخر میں کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ 'وزیر اعظم کے سابق معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے ہمراہ اسلام آباد میں جائزہ لینے کے دوران مہم کے آن گراؤنڈ ٹیموں کے کام کرنے کے طریقۂ کار کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔'
صفدر نے کہا کہ اس سے قبل پورے مہینے صحت کارکنوں کو ملازمت حاصل ہوتی تھی اور انہیں 25000 روپے تک ادا کیے جاتے تھے لیکن اب ملازمت کی نوعیت تبدیل ہوگئی ہے۔
صفدر نے کہا کہ 'نئے قوانین کے تحت لیڈی ہیلتھ کیئر ورکرز کو صرف 10 دن کے لیے سندھ اور خیبر پختونخوا کے کچھ حصوں میں ملازمت پر رکھا جاتا ہے اور انہیں پورے مہینے کے بجائے روزانہ کی رقم ادا کی جاتی ہے۔'
پاکستان میں کورونا وائرس کا اپنا کیس 26 فروری کو سامنے آیا تھا۔ جیسے جیسے معاملے میں اضافہ ہوا تو گھر میں جا کر پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی مہم مارچ میں معطل کر دی گئی اور پھر صرف جولائی میں چھوٹے پیمانے پر پھر سے اس کا آغاز ہونا تھا۔
پاکستان پولیو کے خاتمے کے پروگرام کے مطابق ملک کے 130 اضلاع میں پانچ برس سے کم عمر کے 34 ملین بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کے لیے رواں ہفتے ایک قومی قومی پولیو کے خاتمے کی مہم شروع کرے گا۔