سال 2021 اپنی تمام تر مثبت و منفی تبدیلیوں کے ساتھ رخصت ہونے والا ہے، لیکن اس سال رونما ہونے والے اہم عالمی واقعات ہمارے ذہنوں میں گردش کرتے رہیں گے اور تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔
ان میں سے کئی اہم خبریں 2022 اور اس کے بعد بھی جاری رہیں گی، یہ برس بھی کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے دنیا کے لیے مشکل ترین سال ثابت ہوا لیکن سیاسی اور معاشی طور پر بھی ہنگامہ خیز رہا۔ قارئین کی یاداشت کو تازہ کرنے کے لیے سال 2021 میں رونما ہوئے اہم عالمی واقعات کو مختصر تفصیل کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔
نئے امریکی صدر کا انتخاب
بیس جنوری کو جو بائیڈن نے امریکا کے 46 ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا اور کملا ہیرس نے نائب صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ جس کے ساتھ ہی ڈونلڈ ٹرمپ کے 4 سالہ صدارت کے دور کا خاتمہ ہوگیا۔
وہیں جنوری میں امریکی صدارتی انتخابات میں شکست کے بعد مدت اقتدار کے خاتمے پر رخصت ہونے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے امریکی ایوان (کانگریس)، کیپیٹل ہل پر حملہ کردیا جس کے بعد ٹرمپ کے حامیوں اور پولیس کے مابین جھڑپیں بھی ہوئیں اور اس میں چار لوگوں کی موت ہوئی تھی۔
امریکی صدارتی انتخاب میں بائیڈن نے 306 اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 232 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے تھے۔ امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے لیے کم سے کم 270 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنا لازمی ہے۔جو بائیڈن نے صدارتی انتخابات میں مطلوبہ تعداد سے زیادہ الیکٹورل ووٹ حاصل کیے تھے۔
میانمار میں فوجی بغاوت
فروری میں میانمار میں فوج نے برسر اقتدار رہنما آنگ سان سوچی کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا جس کے بعد ملک بھر میں فوج مخالف مظاہرے شروع ہوگئے۔
آنگ سان سوچی کو ملک میں فوجی بغاوت کے موقع پر حراست میں لے لیا گیا تھا اور خصوصی عدالت نے پہلے چار برس کی قید کی سزا سنائی تھی لیکن بعد میں عدالت نے سزا میں تخفیف کرتے ہوئے اسے دو برس کر دیا۔
آنگ سان سوچی کو لوگوں کو حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسانے اور کورونا وائرس سے متعلق قواعد کی خلاف ورزی کے الزامات میں سزا سنائی گئی تھی۔
میانمار پانچ دہائیوں تک سخت فوجی حکمرانی میں رہا جس کی وجہ سے وہ بین الاقوامی سطح پر تنہا اور پابندی کا شکار رہا ہے۔ 2015 کے انتخابات میں نوبل امن انعام یافتہ آنگ سان سوچی نے قیادت سنبھالی،جس کے بعد سے عالمی برادری نے زیادہ تر پابندیاں منسوخ کرکے ملک میں سرمایہ کاری کی۔
لیکن گزشتہ سال نومبر کے انتخابات کے بعد 1 فروری کو فوجی بغاوت نے سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی پارٹی کو برطرف کر دیا۔
گزشتہ سال نومبر میں ہونے والے میانمار کے عام انتخابات میں سوچی کی جماعت نے یکطرفہ کامیابی حاصل کی تھی، جب کہ فوج سے منسلک جماعت کو کئی نشستوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کے بعد فوج نے ووٹنگ میں دھاندلی کا الزام لگا کر آنگ سانگ سوچی کو اقتدار سے معزول کر دیا تھا۔
اس فوجی بغاوت کے بعد سے ہی میانمار میں فوج کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سیکورٹی فورسز کی کارروائی میں اب تک 1300 سے زائد شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور 10 ہزار سے زائد کو گرفتار کیا گیا ہے
آنگ سان سوچی کے دورِ حکومت میں سال 2016 اور 2017 کے درمیان روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام بھی کیا گیا جس پر دنیا بھر کی جانب سے میانمار حکومت پر شدید تنقید بھی کی گئی تھی اور سوچی سے امن کا نوبل انعام بھی واپس لے لیا گیا تھا۔
نہر سوئز میں بحری جہاز کا پھنسنا
بحیرہ احمر کو بحیرہ روم سے ملانے والی نہر سوئز میں دنیا کا سب سے بڑا تجارتی بحری جہاز ایور گرین کے پھنسنے سے عالمی معیشت ڈگمگانے لگی تھی کیونکہ اس حادثے کی وجہ سے سینکڑوں تجارتی جہاز پھنس گئے تھے۔
نہر سویز میں ایور گرین بحری جہاز کے پھنسنے کے باعث یوروپ سے ایشیا سامان پہنچانے کا بحری راستہ بند ہوگیا۔کئی بحری جہاز راستے میں ہی رک گئے جبکہ آئل ٹینکرز کے شپنگ ریٹس دوگنے ہوگئے ہیں۔
واضح ہو کہ نہر سویز 193 کلومیٹر طویل اور 205 میٹر چوڑا ہے جبکہ اس میں پھنسنے والا جہاز ایور گرین 400 میٹر لمبا اور 60 میٹر چوڑا ہے۔
یہ جہاز چین سے نیدر لینڈ کے شہر روٹر ڈیم جا رہا تھا، نہر سویز کو پار کرتے ہوئے ہوا کے تیز دباؤ کی وجہ سے اس کی سمت بدل گئی اور اس نے نہر کو بلاک کردیا۔ اور کئی دنوں کی مشقت کے بعد اس بحری جہاز کو نکالا گیا۔
اسرائیل کی غزہ پر وحشیانہ بمباری
مئی میں اسرائیل نے حماس پر راکٹ حملوں کا الزام لگا کر غزہ کی پٹی پر فضائی حملے کیے۔ اس سے قبل اسرائیل شیخ جراح کے علاقے میں رہائش پذیر فلسطینیوں کو بے دخل کرچکا تھا۔
اسرائیل نے 11 دن کی لڑائی کے دوران حماس کے سینئر رہنماؤں کے گھروں پر بھی بمباری کی۔21 مئی تک جاری اسرائیلی حملے میں 250 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے جبکہ ہزاروں افراد زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک شدگان اور زخمیوں میں خواتین اور بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔جن میں سے اکثریت فلسطینیوں کی تھی اور اسرائیل عالمی دباؤ پر جنگ بندی پر آمادہ ہوا۔
اس دوران اسرائیل کے ذریعے غزہ میں واقع میڈیا دفاتر پر بھی فضائی حملہ کیا گیا، اور غزہ کی پٹی میں 10 منزلہ الجواہرا ٹاور کو تباہ کر دیا گیا۔ اس 10 منزلہ عمارت میں فلسطینی ڈیلی نیوز اخبار اور ٹی وی چینل العرابی سمیت میڈیا کے 14 دفاتر تھے۔ اسرائیل نے اس کے اگلے روز یعنی 15 مئی کو غزہ میں ایک دوسری کثیر المنزلہ عمارت کو نشانہ بنایا جس میں الجزیرہ اور امریکی خبر رساں ایجنسی ایسو سی ایٹڈ پریس سمیت دیگر بین القوامی میڈیا کے دفاتر بھی تباہ ہو گئے۔
پیگاسس کا معاملہ
اسرائیل کے سافٹ ویئر پیگاسس کے ذریعے اہم شخصیات کے موبائل فونز کی جاسوسی کے الزامات سے متعلق رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد سے دنیا میں ہنگامہ برپا ہو گیا ہے۔
متعدد ممالک کی حکومتوں پر الزام ہے کہ انہوں نے اسرائیلی کمپنی کے جاسوسی سافٹ ویئر کا استعمال کر کے صحافیوں، انسانی اور شہری حقوق کے کارکنان، سیاسی مخالفین، اور کاروباری ہستیوں کے فونز کی جاسوسی کرائی۔
بھارت میں بھی مودی حکومت پر الزامات عائد کیا گیا ہے کہ اس نے بھی اس سافٹ ویئر کو خریدا تھا اور حزب اختلاف کے لیڈران، صحافیوں یہاں تک کہ جج اور فوج کے اعلیٰ عہدیدار کے فون کی بھی جاسوسی کرائی۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشل اور 17 صحافتی اداروں کے کنسورشیم ’پیگاسس پراجیکٹ‘ کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ دنیا کے کئی ممالک نے اسرائیلی کمپنی ’این ایس او‘ کے جاسوسی سافٹ ویئر پیگاسس کے ذریعے لوگوں کے فون ہیک کیے۔
قابل ذکر ہے کہ اس سافٹئر کے ذریعے فونز میں موجود پیغامات، تصاویر، ای میلز، کالز کے ریکارڈ تک رسائی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ فون کے کیمرا کو صارف کے علم میں لائے بغیر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
بیس برس بعد افغانستان پر طالبان کی حکومت
15 اگست کو افغانستان میں امریکی اتحادی حکومت کی فورسز کے سرینڈر کر دینے کے بعد طالبان نے 20 سال بعد ملک پر دوبارہ اپنی حکومت قائم کرلی جبکہ افغان قیادت اور فورسز میدان چھوڑ کر فرار اختیار کر چکے تھے۔
سابق افغان صدر اشرف غنی نے یہ کہتے ہوئے ملک چھوڑ دیا تھا کہ وہ خونریزی سے بچنا چاہتے ہیں۔
وہیں 30 اگست کو امریکا نے افغانستان سے اپنے آخری فوجی دستے کو بھی واپس بلا لیا جس کے ساتھ ہی افغانستان میں 20 سالہ جنگ کا خاتمہ ہوگیا۔
امریکہ اور طالبان نے گزشتہ برس 29 فروری 2020 کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کے کئی ادوار کے بعد امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
معاہدے کے تحت امریکہ نے افغان جیلوں میں قید طالبان جنگجوؤں کی رہائی سمیت مئی 2021 تک افغانستان سے امریکی اور اتحادی فوج کے مکمل انخلا پر اتفاق کیا تھا۔
لیکن صدر جو بائیڈن نے رواں سال کے شروع میں امریکی فوجی کے انخلا کے لیے 31 اگست کی آخری تاریخ مقرر کی تھی۔
امریکی فوج کے انخلا سے قبل ہی طالبان نے برق رفتاری سے افغانستان کے متعدد صوبوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا اور 15 اگست کو ملک کے دارالحکموت کابل میں داخل ہونے کے ساتھ ہی صدر اشرف غنی کے ملک سے فرار ہوگئے تھے۔
افغانستان پر طالبان کی حکومت کے 100 سے زائد دن گزرجانے کے بعد بھی ابھی تک اس تنظیم کو دنیا کے کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔
خواتین اور انسانی حقوق کا احترام، جامع حکومت کا قیام، افغانستان کو دہشت گردی کی محفوظ پناہ گاہ نہ بننے دینا عالمی برادری کی جانب سے تسلیم کرنے کی پیشگی شرائط ہیں۔
جبکہ افغانستان کو معاشی بدحالی اور انسانی تباہی کا سامنا ہے۔ ملک کے اربوں ڈالر مالیت کے بیرون ملک اثاثے، زیادہ تر امریکہ میں منجمد کر دیے گئے ہیں اور ملک کو ملنے والی بین الاقوامی مالی امداد بند ہوگئی ہے۔