اردو

urdu

ETV Bharat / international

جو بائیڈن کون ہیں؟

امریکی صدارتی انتخابات میں جو بائیڈن کی شاندار کامیابی کے بعد لوگوں کی دلچسپی یہ جاننے میں بڑھ گئی ہے کہ جو بائیڈن کون ہیں، ان کا بیک گراونڈ کیا ہے، وہ اس مقام تک کیسے پہنچنے اور ان کی زندگی کے نشیب فراز کیا ہیں؟

sdf
sdf

By

Published : Nov 8, 2020, 9:28 PM IST

امریکی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن کو شاندار کامیابی ملی ہے اور اس کامیابی کے بعد وہ 20 جنوری سنہ 2021 کو حلف لینے کے بعد امریکہ کے 46 ویں صدر بن جائیں گے۔

ان کی اس شاندار کامیابی کے بعد لوگوں کی دلچسپی اس بات کو جاننے میں بڑھ گئی ہے کہ جو بائیڈن کون ہیں، ان کا بیک گراونڈ کیا ہے اور وہ کیسے اس مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

جو بائیڈن کی پیدائش

جو بائیڈن 20 نومبر سنہ 1942 میں امریکی ریاست پنسیلوینیا کے سکرینٹن میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ کا نام کیتھرین یوجینیا تھا، جو ایک روایتی عیسائی خاتون تھیں۔ ان کا سنہ 2010 میں انتقال ہو گیا۔ ان کے والد کا نام جوزف روبینیٹ بائیڈن (سینئر) تھا۔ وہ ابتداء میں دولت مند تھے لیکن بائیڈن کے پیدا ہونے تک انہیں کئی مالی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا اور کئی برسوں سے بائیڈن کا خاندان ان کے نانا نانی کے ساتھ رہا۔

جو بائیڈن کی سنہ 1953 کی تصویر

بائیڈن کے والدین نے کئی برسوں تک ریاست ڈیلاویئر کے کلےمنٹ علاقے میں ایک اپارٹمنٹ میں رہائش اختیار کی۔ بعد ازاں وہ ولمنگٹن ڈیلاویئر میں دوسرے گھر میں منتقل ہو گئے۔ وقت گذرنے کے ساتھ جو بائیڈن کے والد ایک کامیاب سکنڈ ہینڈ کار فروخت کرنے والے تاجر بن گئے، جس کے بعد ان کی مالی حالت کافی اچھی ہو گئی۔

جو بائیڈن ایک متوسط امیر گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بائیڈن اپنی ایک بہن اور دو بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم کلےمنٹ ڈلاوئیر میں ہوئی۔ یہاں انہیں ایک اچھے سکول 'آرچ میئر اکیڈمی' میں داخلہ مل گیا۔

بچن میں 20 برس سے پہلے کی عمر میں جو بائیڈن ہکلاتے تھے، جس کے سبب وہ اپنی بات صحیح سے نہیں کہ پاتے، اس کو دور کرنے کے لیے وہ آئینے کے سامنے نظمیں پڑھتے، بالآخر سخت محنت کے بعد وہ اس پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے۔

ان کی والدہ بائیڈن کو بہادر بچہ بنانا چاہتی تھیں۔ بائیڈن بتاتے ہیں کہ جب وہ محلے کے کسی بچے کے ساتھ جھگڑا کرکے مار کھا کر آتے تو ان کی ماں کہتیں کہ 'ان کی ناک سے خون بہا کر آؤ تاکہ تم اگلے دن سر اونچا کر کے اپنی گلی سے گزر سکو'۔

کہا جاتا ہے کہ بائیڈن تعلیم کے معاملے کچھ خاص نہ تھے، لیکن فٹ بال کافی اچھا کھیلتے تھے۔ جو بائیڈن نے یونیورسٹی آف ڈِلاوئیر سے سنہ 1961 میں تاریخ اور سیاسیات میں بی اے کیا اور سنہ 1965 میں ڈبل گریجویشن کی ڈگری حاصل کی، لیکن فٹ بال کھیلنا جاری رکھا۔

جو بائیڈن کی سنہ 1965 کی تصویر

جو بائیڈن کی شادی

سنہ 1965 میں نیویارک میں واقع سیرا کیوز یونیورسٹی میں بائیڈن نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کی شروعات کی۔ اپنی تعلیم کے دوران وہ بہاما کے جزائر پر تفریح کے لیے گئے تھے، جہاں سیرا کیوز یونیورسٹی کی ایک ہی طالبہ نیلیہ ہنٹر سے ان کی ملاقات ہوئی اور پہلی نظر میں یہ ملاقات پیار میں بدل گئی۔ اس طرح ایک برس کے بعد بائیڈن نے 27 اگست سنہ 1966 میں نیلیہ ہنٹر سے شادی کر لی۔

بائیڈن کی پہلی بیوی نیلیہ ہنٹر

سیاسی زندگی کا آغاز

سنہ 1968 میں قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بائیڈن لا فرم میں پریکٹس کرنے کے لیے ولمنگٹن ڈیلاوئیر چلے گئے۔ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سرگرم رکن بن گئے اور سنہ 1970 میں پہلی بار نیو کاسل کاونٹی کاونسل کے رکن منتخب کیے گئے۔کاونسل کے رکن رہتے ہوئے انہوں نے سنہ 1971 میں اپنا لا فرم شروع کیا۔

بائیڈن نے ایک بار کہا تھا کہ ان کی پروفیشنل زندگی مصرف ہوتی رہی اور یہ سب کچھ ان کی امید سے بھی تیز تر ہوتا چلا گیا۔ اس دوران ان کے تین بچے بھی پیدا ہوئے۔ جوژیف بائیڈن تھرڈ سنہ 1969 میں، ہنٹر بائیڈن سنہ 1970 میں اور ان کی بیٹی نومی بائیڈن سنہ 1971 میں پیدا ہوئی۔

سنہ 1972 میں وہ پہلی بار ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے امریکی سنیٹ کے رکن منتخب ہوئے اور ریپبلکن پارٹی کے کیلِب بوگس کو زبردست شکست دی۔ اس انتخاب میں ان کی بیوی، بہن اور اہل خانہ نے ملک کر انتخابی مہم چلائی اور دن رات ایک کر دیا۔ اس طرح وہ پانچویں سب سے کم عمر امریکی سنیٹر کے طور پر منتخب ہوئے۔

بائیڈن کی زندگی کا سب سے خوفناک حادثہ

سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا اور الیکشن جیتے کے بعد حلف لینے کی تیاری چل رہی، تبھی سنہ 1972 میں کرسمس ڈے سے ایک ہفتہ قبل بائیڈن کی اہلیہ نیلیہ ہنٹر اپنے تینوں بچوں کے ہمراہ شاپنگ کے لیے باہر گئی تھیں اور ان کی کار کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ اس حادثے میں ان کی اہلیہ اور ان کی چھوٹی بیٹی نومی جائے حادثہ پر ہی انتقال کر گئیں، جبکہ ان کے دونوں بیٹے شدید زخمی ہو گئے۔

اس حادثے نے بائیڈن کو اندر سے ہلا کر رکھ دیا۔ اس دوران انہیں سنیٹر کے طور پر حلف لینا تھا، لیکن وہ واشنگٹن سے حلف برداری کی تقریب چھوڑ کر ہاسپٹل گئے، جہاں دونوں بیٹے ایڈمٹ تھے۔

کافی غور و فکر کے بعد بائیڈن نے فیصلہ کیا کہ انہیں تمام تر ذہنی الجھنوں کے باوجود ڈیلاوئیر کے لوگوں کی سنیٹ میں نمائندگی کرنی ہے اور انہوں نے اپنے بیٹے کے ہاسپٹل کے کمرے میں ہی حلف لے کر ایک نیا ریکارڈ بنایا۔

بائیڈن نے ولمنگٹن میں رہ کر اپنے بیٹوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح بائیڈن طویل عرصے تک ٹرین کے ذریعہ واشگٹن ڈی سی جاتے، سنیٹ میں کام کاج کرتے اور پھر واپس اپنے بیٹوں کے ساتھ وقت گزارتے۔ ان کے دونوں بیٹے صحتیاب ہو گئے، لیکن ان کے بڑے بیٹے بیئو بائیڈن کا سنہ 2015 میں برین کینسر کے سبب انتقال ہو گیا، جس کے بعد ایک بار پھر جو بائیڈن غم سے نڈھال ہو گئے۔

بائیڈن کی دوسری شادی

اپنی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد بائیڈن نے کچھ برسوں تک خود کو شادی سے دور رکھا اور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہے، لیکن سنہ 1977 میں اپنی تنہائی دور کرنے کے لیے جِل سے دوسری شادی کر لی اور سنہ 1980 میں ان دونوں کی بیٹی ایشلی پیدا ہوئیں۔

جو بائیڈن اپنی دوسری بیوی جل کے ساتھ خوشگوار موڈ میں

سنہ 1973 سے 2009 تک بائیڈن نے سنیٹر کے طور پر شاندار کام کیا۔ سنیٹ رہتے ہوئے انہوں نے خارجہ پالیسی میں کافی مہارت حاصل کر لی اور کئی برس تک بائیڈن نے 'کمیٹی آن فارین ریلیشنس' کے چیئرمین کے طور پر کام کیا۔

سنہ 1973 میں بائیڈن

بائیڈن کی خارجہ پالیسیوں میں سوویت یونین کے ساتھ اسٹریٹجک ہتھیاروں کے محدود کی حمایت، بلقان میں امن و استحکام کو فروغ دینے، سابق سوویت بلاک کے ممالک کو شامل کرنے کے لئے نیٹو کی توسیع اور خلیج پہلی جنگ کی مخالفت کافی اہم ہیں۔

بعد کے برسوں میں بائیڈن نے افریقی ملک سوڈان میں 'دار فور جنگ' کو ختم کرنے کے لیے امریکی اقدام کو روکنے کی بات کہی۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے عراق جنگ کے لیے جارج بش کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا، بالخصوص سنہ 2007 میں فوج کے اضافے سے متعلق۔

بائیڈ کے صدر بننے کی پہلی کوشش

سنہ 1987 میں بائیڈن نے خود کو واشنگٹن کے سب سے اہم قانون سازوں میں سے ایک سمجھ کر امریکی صدراتی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا، تاہم انہوں نے ڈیموکریٹ کی پرائمری سے انکار کر دیا۔ اسی دوران ان پر کچھ مواد سرقہ کرنے کا بھی الزام عائد کیا گیا۔

سنہ 1987 میں جو بائیڈن

اس مہم کے دوران بائیڈن کے سر میں شدید قسم کا درد شروع ہوا، جس نے ان کی صدر بننے کی امیدوں کو توڑ دیا۔ سنہ 1988 میں جب ڈاکٹرز نے ان کے دماغ اور پھیپھڑے سے متعلق دو لائف تھریٹ کی بات کہی تو انہوں نے انتخابی مہم چھوڑ کر اپنی بیماری کی طرف توجہ دی اور سرجری کرائی اور سرجری کے سات ماہ بعد دوبارہ سنیٹ واپس لوٹے۔

بائیڈن کے صدر بننے کی دوسری کوشش

تقریبا 20 برسوں کے بعد سنہ 2007 میں بائیڈن نے دوبارہ امریکہ کا صدر بننے کی کوششیں شروع کی، لیکن باراک اوبامہ اور ہلکری کلنٹن کے سامنے پھیکے پڑ گئے اور وہ کوکسس (انتخاب کا شروعاتی مرحلہ) میں ایک فیصد سے بھی کم ووٹ پانے کے بعد ریس سے باہر ہو گئے۔

کچھ ماہ بعد ہلری کلنٹن کو سخت مقابلے میں شکست دینے کے بعد اوبامہ نے ڈیموکریٹک پارٹی سے صدر کی امیدواری حاصل کر لی اور بائیڈن کو اپنا رننگ میٹ (نائب صدر) کا امیدوار بنایا۔

سنہ 2008 میں اوباکہ کے ساتھ جو بائیڈن

سنہ 2009 میں باراک اوبامہ ریپبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار جان مکین کو شکست دے کر امریکہ کے صدر منتخب ہوئے اور جو بائیڈن نے سارہ پیلن کو شکست دے کر نائب صدر کا عہدہ سنبھالا۔ اس طرح سنہ 2017 تک مسلسل 2 بار اوبامہ کے ساتھ نائب صدر کے عہدے پر فائز رہے۔

سنہ 2012 میں اوبامہ کے ساتھ

بائیڈن زیادہ تر پردے کے پیچھے صدر اوبامہ کے مشیر کے کردار میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ انہوں نے عراق اور افغانستان سے متعلق وفاقی پالیسیاں تشکیل دینے میں خاص طور پر کردار ادا کیا۔ سنہ 2010 میں بائیڈن نے ریاستہائے متحدہ اور روسی فیڈریشن کے مابین نئے اسٹریٹجک اسلحہ تخفیف معاہدے کو منظور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

بائیڈن کا یوکرین کنکشن

بائیڈن کے بیٹے ہنٹر بائیڈن پر الزام عائد ہوا کہ یوکرین میں ایک آئل کمپنی کے حوالے سے یوکرین کی حکومت نے ہنٹر بائیڈن کو فائدہ پہنچایا ہے اور اس کے لیے جو بائیڈن نے اپنے عہدے پر رہتے ہوئے یوکرین حکومت کو متاثر کیا، لیکن بائیڈن کا یوکرین سکینڈل میں کیا کردار تھا اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

سنہ 2019 میں وائٹ ہاؤس سے کچھ ایسی معلومات کا انکشاف ہوا جن سے یہ پتا چلا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین کی حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ جو بائیڈن کے خلاف کرپشن کی انکوائری کرائے۔ جو بائیڈن نے نائب صدر ہوتے ہوئے یوکرین کی ایک تیل کمپنی 'بوریزما' میں اپنے بیٹے ہنٹر بائیڈن کو ڈائریکٹر بنوایا تھا۔

رواں برس صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کے بعد یوکرین کی حکومت نے بوریزما معاملے کی انکوائری کرائی، جس میں یہ پتا چلا کہ 50 لاکھ ڈالر کی رشوت دی گئی تھی، لیکن یوکرین کی حکومت نے کہا کہ رشوت لینے والوں میں بائیڈن کا نام نہیں تھا۔

اس طرح متعدد تلخ و ترش یادوں اور معاملات کے ساتھ 77 سالہ سب سے عمر دراز شخص جو بائیڈن اب امریکہ کے 46 ویں صدر ہوں گے اور اب ان پر ذمہ داری ہو گی کہ وہ امریکہ کو اپنے تجربات سے کتنا فائدہ پہنچاتے ہیں اور دنیا کے دیگر ممالک ان کے فیصلوں سے کس قدر متاثر ہوتے ہیں؟

ABOUT THE AUTHOR

...view details