امریکی صدر جو بائیڈن انتظامیہ نے کہا ہے کہ تہران کی جانب سے امریکہ اور سنہ 2015 کے جوہری معاہدے میں شامل دیگر ممالک کے ساتھ غیر رسمی بات چیت کرنے سے انکار کر دینے کے باوجود ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر بات چیت کے لیے راستہ اب بھی کھلا ہے۔
امریکہ نے کہا ہے کہ اسے اس بات سے 'مایوسی‘ ہوئی ہے کہ ایران نے امریکہ اور سنہ 2015 کے جوہری معاہدے میں شامل دیگر ممالک کے ساتھ غیر رسمی بات چیت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
تہران کا کہنا ہے کہ وہ مشترکہ جامع منصوبہ لائحہ عمل (جے سی پی او اے) یا ایران جوہری معاہدے پر غور و خوض کے لیے کسی میٹنگ میں اس وقت تک شامل نہیں ہوگا جب تک کہ اس پر عائد پابندیاں ختم نہیں کی جاتی ہیں۔
خیال رہے کہ صدر جو بائیڈن نے بار بار کہا ہے کہ امریکہ اس معاہدے میں واپس آجائے گا جس کو لیکر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سنہ 2018 میں اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کرکے ایران پر دوبارہ جوہری پابندیاں عائد کردی تھیں۔ اس طرح ایران نے بھی معاہدے کی تعمیل کو روک کر یورینیم کی افزودگی شروع کر دی تھی۔
ایرانی وزات خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادے نے کہا ہے کہ 'پہلے امریکہ اس جوہری معاہدے میں واپس آئے اور ایران پر عائد غیر قانونی پابندیاں ختم کرے۔ اس کے لیے کسی بات چیت کی ضرورت نہیں ہے اور جیسے ہی پابندیاں ختم کی جائیں گی ہم اپنے وعدوں پر لوٹ آئیں گے'۔