براؤن یونیورسٹی کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں گزشتہ 20 برس میں 2 ہزار ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کیے۔ امریکی میڈیا کے کئی بڑے اداروں نے اس رپورٹ کو نمایاں حیثیت دی ہے، جس میں کہا گیا کہ اس رقم سے ’مختصر تعداد پر مشتمل نوجوان، انتہائی امیر افغانی بن گئے‘، ان میں سے بیشتر نے امریکی فوج کے مترجم کی حیثیت سے کام شروع کیا اور کروڑ پتی بن گئے۔
ایک امریکی نیوز چینل سی این بی سی نے یونیورسٹی کے نتائج پر اپنی رپورٹ میں کہا کہ ’کنٹریکٹرز کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہوئی جس نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بالآخر اس کی نازک جمہوریت کو تباہ کر دیا‘۔
سی این بی سی نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان کی تعمیر نو میں یہ تمام کوششیں کیں پھر بھی طالبان کو ہر صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کرنے، فوج کو تحلیل کرنے اور امریکی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹنے میں صرف 9 دن لگے۔
پینٹاگون واچ ڈاگ سیگار کے ساتھ ایک انٹرویو میں افغانستان میں دو مرتبہ امریکی سفیر ریان کروکر نے نائن الیون کے بعد کی کرپشن کو امریکہ کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوششوں کی ناکامی کا واضح پہلو شورش نہیں بلکہ مقامی بدعنوانی کا وزن تھا‘۔
کئی کروڑ پتی افغان باشندوں میں بیشتر نے امریکی فوج کے مترجم کے طور پر کام شروع کیا اور اپنی وفاداری کی وجہ سے وہ دفاعی معاہدوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
ان میں سے ایک کابل میں انگریزی کے استاد فہیم ہاشمی تھے جنہیں امریکی فوج نے بطور مترجم اپنے ساتھ شامل کیا، بعد میں فہیم ہاشمی نے ایک کمپنی قائم کی جو فوجی اڈوں کو سامان اور ایندھن فراہم کرتی تھی۔
ندیم ہاشمی گزشتہ ماہ کابل حکومت کے خاتمے کے لیے بدعنوانی کو مورد الزام ٹھہرانے سے نہیں شرماتے، انہوں نے 2013 میں یو ایس نیشنل پبلک ریڈیو کو بتایا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ کرپشن ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے، میرے خیال میں بدعنوانی نہ صرف کاروبار پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے بلکہ اس کا براہ راست تعلق عدم تحفظ سے بھی ہے۔