متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں امن معاہدوں پر دستخط کردیے ہیں۔ اس طرح ان دونوں ممالک کے اسرائیل کے ساتھ باضابطہ طور پر معمول کے تعلقات استوار ہوگئے ۔
وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ اسرائیل کے سنگ میل معاہدوں کو ’نئے مشرق وسطی کا آغاز‘ کہہ کر خوش آمدید کہا ہے۔
سنہ 1948 میں اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد یہ دونوں خلیجی ریاستیں اسے تسلیم کرنے والے تیسرے اور چوتھے عرب ممالک ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو امید ہے کہ دوسرے ممالک بھی ان کی پیروی کریں گے لیکن فلسطینیوں نے زور دیا ہے کہ باقی ممالک ایسا نہ کریں۔
واضح رہے کہ بیشتر عرب ممالک نے کئی دہائیوں سے اسرائیل کا بائیکاٹ کر رکھا ہے اور وہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ وہ اس تنازع کے حل کے بعد ہی تعلقات استوار کریں گے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجامین نیتن یاہو نے بحرینی وزیر خارجہ عبداللطیف الزیانی اور امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید آل نہیان کے ساتھ الگ الگ امن معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ان کے علاوہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ’’معاہدہ ابراہیم‘‘ پر دستخط کیے ہیں۔
متحدہ عرب امارات اسرائیل سے معمول کے تعلقات استوار کرنے والا تیسرا اور بحرین چوتھا ملک بن گیا ہے۔قبل ازیں عرب ممالک میں سے مصر اور اردن کے اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات استوار ہیں۔ مصر نے اسرائیل کے ساتھ 1979ء میں کیمپ ڈیوڈ میں امن معاہدہ طے کیا تھا۔اس کے بعد 1994ء میں اردن نے اسرائیل سے امن معاہدے کے بعد سفارتی تعلقات استوار کیے تھے۔
اس تقریب میں خطاب کرتے ہوئے شیخ عبداللہ بن زاید آل نہیان نے بنیامین نیتن یاہو کاشکریہ ادا کیا کہ انھوں نے ’’امن کا انتخاب‘‘ کیا ہے اور وہ فلسطینی علاقوں کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کے منصوبے سے دست بردار ہوگئے ہیں۔
اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے اپنے مقبوضہ مغربی کنارے میں واقع وادیِ اردن اور بعض دوسرے علاقوں کو ریاست میں ضم کرنے کے منصوبے سے دستبردار ہونے سے اتفاق کیا تھا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ان علاقوں کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کا اعلان کررکھا تھا۔
بحرینی وزیر خارجہ عبداللطیف الزیانی نے بھی اپنے ملک کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کی ستائش کی ہے اور اس کو امن کی جانب پہلا اہم قدم قرار دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’’ یہ اب ہماری ذمے داری ہے کہ ہمیں اپنے عوام کو ایسا امن وسلامتی مہیا کرنے کے لیے فوری طور پر اور فعال انداز میں کام کریں جس کے وہ حق دار ہیں۔‘‘