لیکن بہت کم لوگوں نے اس بات کی پیش گوئی کی تھی کہ کینیڈا میں حکومت سازی کے عمل کے دوران بھارتی نژاد کینیڈین رہنماء جگمیت سنگھ کنگ میکربن سکتے ہیں جو 24 رکنی پارلیمان کے ساتھ بائیں بازو کا رحجان رکھنے والی نیشنل ڈیموکریٹ پارٹی ( این ڈی پی) کی قیادت کرتے ہیں۔ یوں تو بھارت کو جگمیت سنگھ کے اس رول میں ابھرنے پر بغلیں بجانا چاہیے تھا لیکن دقت یہ ہے کہ وہ نہ صرف خالصتان کے پرجوش حمایتی ہیں بلکہ بھارت کے بھی بڑے نکتہ چیں ہیں۔ اس پس منظر میں ٹروڈو کی اقلیتی حکومت، جو کہ این ڈی پی یا بلاک کیوبیکوئس (تیسری سب سے بڑی پارٹی) کی حمایت سے معرض وجود میں آئے گی، کسی بھی طور پر بھارت، کینیڈا تعلقات کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔
اگر کوئی دو ممالک کو فطری طور پر ہم آہنگ ہونا چاہیے تو وہ بھارت اور کینیڈا ہی ہوسکتے تھے۔ دونوں ممالک کے درمیان حیرت انگیز مماثلت ہے۔ دونوں ممالک کا گوناگوں نسلی اور ثقافتی امتزاج، مضبوط جمہوری نظام، انگریزی بولنے والوں کی غالب آبادی، قانون کی بالادستی، غیر مقیم باشندوں کے تعلقات وغیرہ چند ایسی قدریں ہیں، جو دونوں ممالک کے درمیان مشترک ہیں لیکن کاتب تقدیر نے ان کے تعلقات میں ہم آہنگی نہیں رکھی۔ ماسوائے دوستی کے چند مختصر ادوار کے، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات زیادہ تر کشیدہ ہی رہے ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ نریندر مودی 42 برس کے وقفے کے بعد سنہ 2015 کے اپریل ماہ میں کینیڈا جانے والے پہلے بھارتی وزیراعظم تھے۔ سنہ 2010 میں جوہری توانائی کے سلسلے میں دونوں ممالک کے مابین باہمی سول جوہری معاون معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جو بہت حد تک کامیاب بھی رہے۔ کنزرویٹیو پارٹی کے رہنما اور وزیراعظم اسٹیفن ہارپر کی قیادت میں پہلی بار کینیڈین حکومت نے عوامی سطح پر بھارت کے اتحاد اور سالمیت کو برقرار رکھنے کا عہد لیا تھا جس سے یہ امید لگائی جارہی تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان نئے تعلقات استوار ہونے کی ابتدا ہوگی۔
تاہم، اکتوبر 2015 کے عام انتخابات میں نوجوان جسٹن ٹروڈو کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی۔ ٹروڈو کی اس جیت پر وزیراعظم نریندر مودی نے فون کرکے انہیں مبارک باد دی اور بھارت آنے کی دعوت بھی دی تھی لیکن عوامی سطح پر مقبول نئے لیڈر نے، خالصتانی عناصر کو اپنی حکومت میں بھرپور جگہ دے کر ایک الگ ہی نہج پر جانا چاہتے تھے۔
ٹروڈو سکھ فرقے کے اعلانیہ مالی اور سیاسی تعاون کے احسان مند ہیں جس کے اعتراف میں انہوں نے ہرجیت سنگھ سجن کو اہم ترین وزیر دفاع کا قلمدان سونپا۔ یہ تعلق اتنا مضبوط ہے کہ انہیں بعض اوقات 'جسٹن سنگھ' کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ سکھوں کے ووٹ بینک پر مہر ثبت کرنے کے لیے وہ فرقے کے تمام لوگوں تک پہنچے۔ ان لوگوں کی اکثریت خالصتان کے حامیوں کی ہے اور یہی الیکشن مہم چلانے کے لیے نہ صرف افرادی قوت فراہم کرتے ہیں بلکہ دوست سیاستدانوں کو اس کے لیے سرمایہ بھی فراہم کرتے ہیں۔ سکھ فرقے سے وابستہ ان افراد نے ملک کے مالی طور پر انتہائی مضبوط گردواروں پر انتظامی کنٹرول حاصل کیا ہے جہاں سے وہ اپنی علیحدگی پسند سرگرمیاں بھی چلاتے ہیں۔ کینیڈا کی انتظامیہ آسانی سے ان مسائل پر کتراتی ہے۔
تاریخی طور کینیڈا کے سکھوں نے لبرل پارٹی کے حق میں والہانہ طورووٹ دیا ہے۔ پنجاب میں 1970 اور 1980 کی دہائیوں کی صورتحال کے دوران، وزیر اعظم پیری ٹروڈیو نے، جو جسٹن ٹروڈیو کے والد تھے، غیر ملکیوں بالخصوص پنجابیوں کیلئے دروازے کھول دئے۔ اسی دور میں سکھوں کی ایک بڑی تعداد نے، سیاسی وجوہات کی بنیاد پر، کینیڈا ہجرت کی۔
کینیڈا کے مغربی ساحل کی جانب پنجابیوں (بالخصوص سکھوں) کی ہجرت کا سلسلہ بیسویں صدی کے اوائل میں شروع ہوا۔ دوسری لہر، جیسا کہ اوپر ذکر کیاگیا، 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں شروع ہوئی۔ اس وقت ہند کنیڈیائی آبادی کم و بیش 1.5 ملین (مجموعی ابادی کا 4 فیصد) تک پہنچ گئی ہے جن میں مشرقی افریقہ کے مہاجرین بھی شامل ہیں۔وہیں کینیڈین آبادی میں ہندؤں کی تعداد 1 ملین کے قریب ہے جبکہ سکھ فرقے سے تعلق رکنے والے لوگوں کی آبادی پانچ لاکھ ہے۔ ہندو پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور میرٹ پر ووٹ ڈالنے کو ترجیح دیتے ہیں۔سکھ زیادہ تر ٹورنٹو کے مضافاتی علاقوں جیسے میسیساؤگا اور برمپٹن کے علاوہ وینکور کی مضافات یعنی سرے اور کالگری میں مقیم ہیں۔