اردو

urdu

ETV Bharat / international

امریکہ اور عالمی ادارہ صحت - امریکہ کیوں عالمی ادارہ صحت سے رشتہ ختم کررہا ہے

سفارتکار اشوک مکھرجی نے امریکہ کا عالمی ادارہ صحت کے ساتھ تعلقات منقطح کرنے پر کہا ہے کہ امریکی انتظامیہ ہمیشہ سے اپنے ملکی ترجیحات کے تناظر میں یک طرفہ فیصلہ کرنے کی عادی رہی ہے۔امریکہ نے پہلے بھی اقوام متحدہ کی تعلیمی، تعلیمی، سماجی اور کلچرل تنظیم یونیسکو اور ہیومن راٹس کونسل سے علیحدگی اختیار کرلی تھی لیکن جہاں تک عالمی ادارہ صحت کا تعلق ہے، اس ضمن میں یہ واضح نہیں ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اس 193رکن ممالک پر مشتمل اس عالمی تنظیم کو چھوڑنے سے پہلے اس میں کون سے ’بنیادی اصلاحات‘ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اپنے بیان میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ عالمی ادارہ صحت پر چین کا مکمل کنٹرول ہے اور چین نے اس عالمی تنظیم کو دباو میں لاکر اُس وقت دُنیا کو گمراہ کیا جب چینی حکام نے پہلی بار کورونا وائرس کو پایا تھا۔

امریکہ اور عالمی ادارہ صحت
امریکہ اور عالمی ادارہ صحت

By

Published : Jun 1, 2020, 2:42 PM IST

امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے 29 مئی 2020 کو وہایٹ میں ہاوس پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ امریکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (عالمی ادارہ صحت) کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کرے گا اور اس کے لئے مختص فنڈز کو دیگر اہم عالمی طبی شعبوں کو منتقل کرے گا۔ دراصل صدر ٹرمپ کی جانب سے ایک ہفتہ قبل عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل کے نام ایک خط میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ آنے والے تیس دن کے اندر اندر اس ادارے میں بنیادی اصلاحات کی جائیں۔ صدر ٹرمپ کا متذکرہ اعلان بظاہر اسی ضمن میں کیا گیا ہے۔

اپنے ملکی ترجیحات کے تناظر میں یک طرفہ فیصلے کرنا ہمیشہ امریکی انتظامیہ کا رویہ رہا ہے۔ اکتوبر 2017 میں بھی امریکہ نے اقوام متحدہ کی تعلیمی، سماجی اور کلچرل تنظیم یونسکو (یو این ای ایس سی او) سے علاحدگی اختیار کرلی۔ یہ تنظیم نومبر 1945 میں قائم کی گئی ہے۔ ایک مشہور امریکی مصنف اور یونسکو کے اولین گورننگ بورڈ کے رکن ارچبالڈ میک لیش نے اس عالمی تنظیم کا منشور مرتب کیا تھا۔ اس منشور کی ایک سطر میں لکھا گیا ہے کہ ’’چونکہ جنگ بنیادی طور پر انسانی ذہن کی پیداوار ہوتی ہے اسلئے امن کے تحفظ کی سوچ بھی انسانی ذہن میں موجود رہنی چاہیے۔‘‘ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یونسکو کو چھوڑنے کا فیصلہ مبینہ طور پر اس وجہ سے کیا گیا تھا کہ اس عالمی تنظیم کے ’’اخراجات بڑھ گئے تھے، اس تنظیم میں اصلاحات کی ضرورت پیدا ہوگئی تھی اور اس میں اسرائیل مخالف جانبداری کا رجحان پیدا ہوگیا تھا۔‘‘

جون 2018 میں امریکہ نے اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کونسل (ایچ آر سی) سے علاحدگی اختیار کرلی۔ یہ کونسل ستمبر 2005 میں ادارہ اقوام متحدہ کی 60 ویں سالگرہ پر رکن ممالک کے اتفاق رائے سے تشکیل دیا گیا تھا۔ تاہم مئی 2006 میں امریکہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس کونسل کی تشکیل سے متعلق پیش کی گئی قرار داد کی مخالفت کی کیونکہ یہ رائے پیدا ہوگئی تھی کہ اس کونسل میں اُن ممالک کو رکن منتخب ہونے سے نہیں روکا جائے گا، جو امریکہ کی نظر میں ’انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں‘ کے مرتکب ہیں۔

ہیومن رائٹس کونسل نے سال 2006 اور 2009ء کے دوران قواعد وضوابط مرتب کئے۔ ان میں فلسطین اور دیگر مقبوضہ عرب خطوں میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق بھی ایجنڈا (ایجنڈا 7 کے نام سے) طے کیا گیا۔ امریکہ نے انسانی حقوق کونسل کے 2006 کے انتخابات میں شمولیت نہیں کی اور وہ اُن میٹنگوں میں شامل نہیں رہا، جن میں (ایجنڈا 7 کے تناظر میں) اسرائیل سے متعلق ایجنڈا طے کرنے کےلئے گفت و شنید ہورہی تھی۔ اس لحاظ سے یہ ستم ظریفی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ہیومن رائٹس کمیشن کو ’اسرائیل کے خلاف دائمی جانبدار‘ قرار دیتے ہوئے اس 47رکن ممالک پر مشتمل تنظیم کو چھوڑ دیا۔

جہاں تک عالمی ادارہ صحت کا تعلق ہے، اس ضمن میں یہ واضح نہیں ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اس 193رکن ممالک پر مشتمل اس عالمی تنظیم کو چھوڑنے سے پہلے اس میں کون سے ’بنیادی اصلاحات‘ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اپنے بیان میں صدر ٹرمپ نے کہا، ’’عالمی ادارہ صحت پر چین کا مکمل کنٹرول ہے اور چین نے اس عالمی تنظیم کو دباو میں لاکر اُس وقت دُنیا کو گمراہ کیا جب چینی حکام نے پہلی بار کورونا وائرس کو پایا تھا۔ لیکن دوسری جانب صدر ٹرمپ نے 24 جنوری کو ایک ٹویٹ میں خود ہی کہا تھا، ’’ چین کورونا وائرس کو قابو کرنے کے لئے سخت محنت کررہا ہے۔‘‘

اس کے بعد کورونا وائرس سے متعلق ایک پریس کانفرنس میں 29 فروری کو صدر ٹرمپ نے خود ہی یہ بھی کہا کہ ’’لگتا ہے کہ چین کو (کورونا وائرس کو قابو کرنے میں) کافی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔‘‘ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ریکارڈ کے مطابق جب چین نے 31 دسمبر 2019ء کو ووہان شہر میں کورونا وائرس کا پہلا کیس پایا تو اس کے ایک دن بعد ہی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے چین کو وائرس سے نمٹنے میں مدد فراہم کرنے کےلئے ایک منیجمنٹ سپورٹ ٹیم تشکیل دی۔

امریکہ 34 رکن ممالک پر مشتمل ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے گورننگ ایگزیکٹو بورڈ میں 2018ء سے 2021ء تک کےلئے ایک منتخب رکن ہے۔ اس بورڈ کی میٹنگ 3 تا 6 فروری 2020 کو ہوئی، جس میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل نے کووِڈ 19 کے بارے میں تفصیلات جاری کیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اس میٹنگ میں کووِڈ19 کے حوالے سے چین کے ریسپانس کا جائزہ لینے کے لئے امریکی حکومت میں صحت کے شعبے کے اسسٹنٹ سیکریٹری ایڈمائرل بریٹ گرور کو نامز کیا تھا۔ تاہم ٹرمپ انتظامیہ اس ضمن میں امریکی سینٹ کی جانب سے اس نامزدگی کی بروقت منظوری حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ ایڈمائرل بریٹ کی نامزدگی کو سینٹ نے 22 مئی 2020ء کو اپنی منظوری دی۔ اسکے بعد ہی وہ پہلی بار بورڈ کی میٹنگ میں شامل ہوئے۔ انہوں نے میٹنگ میں اس عالمی تنظیم میں ’اصلاحات‘ کرنے پر زور دیا تاکہ یہ بات یقینی بنائی جاسکے کہ آئندہ اس طرح کی وبا نہ پھیلے۔ انہوں نے اس ضمن میں ’’غیر جانبداری سے، آزادانہ طور اور وسیع پیمانے پر جائزہ‘‘ لینے پر زور دیا۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے امریکہ کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے علاحدہ کرنے کے لئے پہلے دو شرائط کو پورا کرنا ہوگا۔ یہ دونوں شرائط سنہ 1948 میں امریکی کانگریس کی جانب سے امریکہ کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن میں شمولیت کی منظوری دینے کے فیصلے سے جڑی ہوئی ہیں۔ ان میں پہلی شرط یہ ہے کہ امریکہ کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے علاحدہ ہوجانے کےلئے ایک سال پیشگی نوٹس دینا ہوگا۔ یعنی اب امریکہ اگلے سال کے وسط میں ہی اس عالمی تنظیم سے علاحدہ ہوسکتا ہے۔

دوسری شرط یہ ہے کہ اسے رواں مالی سال کےلئے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو وہ فنڈز فراہم کرنے ہونگے، جن کو وہ وعدہ بند ہے۔ یعنی باوجود اس کے یہ امریکی صدر نے اعلان کیا کہ وہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے لئے مختص فنڈس کو صحت سے متعلق دیگر عالمی طبی شعبوں کےلئے منتقل کریں گے، اسے رواں سال کےلئے ورلڈ ہیلتھ آگنائزیشن کو رواں مالی سال کےلئے فنڈز فراہم کرنے ہی ہونگے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ اس تنظیم کو سال 2020ء اور 2021ء میں 236.9 ملین ڈالر لازمی تعاون اور 656 ملین ڈالر رضاکارانہ تعاون دینے کا پابند ہے۔ امریکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو فنڈز فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہ اس عالمی ادارہ صحت کے سالانہ بجٹ کو بائیس فیصد فراہم کرتا ہے۔ اس کے کنٹری بیوشن کا غالب حصہ ( یعنی 27.4 فیصد) دُنیا میں پولیو کی روکھتام کے لئے خرچ ہوتا ہے، 17.4فیصد غذائیت کی فراہمی کی خدمات پر خرچ ہوتا ہے، اس کے بعد 7.4فیصد ویکسین کے ذریعے بیماریوں کو علاج و معالجہ کرنے اور 5.74 فیصد تپ دق کی بیماریوں کی روکتھام پر خرچ کیا جاتا ہے۔ امریکہ کی جانب سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے علاحدہ ہوجانے کے نتیجے میں دیگر رکن ممالک کو یہ موقعہ فراہم ہوگا کہ وہ عالمی سطح پر درپیش صحت سے جڑے معاملات میں اپنا تعاون فراہم کریں۔ اب ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا فوکس کووِڈ 19 کےلئے ویکسین تیار کرنے اور اسے تقسیم کرنے پر توجہ مرکوز کرے گی۔

جنیوا میں منعقدہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی حالیہ ورلڈ ہیلتھ اسمبلی (ڈبلیو ایچ اے) میں یورپین یونین اور چین نے اپنی خدمات بہم پہنچانے کی تجویز پیش کی۔ 19 مئی 2020 کو ورلڈ ہیلتھ اسمبلی میں کووِڈ 19 سے متعلق جو قرارداد پاس کی گئی، اسے بھارت سمیت 130 ممالک نے اپنا سپورٹ دیا۔ اس قرارداد کی رو سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو کوِوڈ 19 سے متعلق عالمی سطح پر تعاون یقینی بنانے، ویکسین اور طبی آلات بہم پہنچانے کا کردار تسلیم کیا گیا۔ اس قرار داد میں واضح کیا گیا کہ سب کو ویکسین کی شفافیت کے ساتھ ، منصفانہ طریقے سے اور بروقت رسائی ہوگی۔ امریکہ کی جانب سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو مالی تعاون روکنے کے نتیجے میں اس ادارے کی کارگردگی پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔

امریکہ نے 29 مئی 2020 کو یہ اعلان کرنے سے پہلے ہی سات ممالک کی نشاندہی کی تھی، جہاں امریکہ طبی شعبوں میں کووِڈ 19 اور پولیو کی روکتھام کےلئے فنڈز فراہم کرے گا۔ ان ممالک میں افغانستان، مصر، لیبیا، پاکستان، شام، سوڈان اور ترکی شامل ہیں۔ ان ممالک میں طبی شعبوں کو فنڈز فراہم کرنے کے لئے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے لئے امریکی فنڈنگ میں کٹوتی کی سفارش کی تھی۔

بھارت کو کووِڈ19 سے متعلق چیلنجز سے نمٹنے کےلئے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور اقوام متحدہ کے ساتھ بڑے پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کو دو دہائیاں قبل ایچ آئی وی اور ایڈز کے بحران سے نمٹنے کے دوران بین الاقوامی تعاون کے ثمرات اور بہتر نتائج کا تجربہ ہوا ہے۔ اُس موقعہ پر بھارتی فارماسیوٹیکل کمپنی (کپلا) کو ان امراض کا سستا علاج فراہم کرنے کےلئے عمومی ادویات استعمال کرنے کی اجازت مل گئی تھی۔

اس بات کا امکان ہے کہ بھارتی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن ایک سال کی مدت کےلئے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ایگزیکٹو بورڈ کی صدر ہونگے۔ اس طرح سے بھارت کو کووِڈ 19 کے چیلنج سے نمٹنے میں عالمی تعاون حاصل کرنے میں مزید مواقعے میسر ہونگے۔ اس کے نتیجے میں بھارت اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے روایتی تعاون کو مزید وسعت ملے گی۔ بھارت اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ساوتھ ایسٹ ایشیا ریجنل آفس (ایس ای اے آر او) کے ہیڈ کوارٹر کو بھی کافی مدد بہم پہنچے گی، جس کی سربراہی بھارت کی ڈاکٹر پونم کھیترپال سنگھ کررہی ہیں۔ ساوتھ ایسٹ ایشیا ریجنل آفس اس وقت بھارت میں کام کررہے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سولہ سو ماہرین صحت کی بھی نگرانی کررہا ہے۔

اشوک مکھرجی

(سفارتکار اور سابق بھارتی نمائندہ برائے ادارہ اقوام متحدہ)

ABOUT THE AUTHOR

...view details