امریکہ نے طالبان حکمرانوں کو سیاسی طور پر تسلیم کیے بغیر معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا انتہائی غربت کا شکار افغانستان کو انسانی امداد فراہم کرنے پر رضامند ہوگیا ہے۔
ڈان میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق یہ بیان اگست کے اختتام پر امریکی افواج کے انخلا کے بعد ماضی کے دشمنوں کے درمیان ہوئے پہلے براہِ راست مذاکرات کے آخر میں سامنے آیا ہے۔
طالبان نے کہا ہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے مذاکرات اچھے رہے جبکہ واشنگٹن، طالبان کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے سے منسلک نہ کرتے ہوئے افغانستان کے لیے انسانی امداد جاری کرنے پر رضامند ہوگیا ہے۔
امریکہ نے واضح کیا ہے کہ یہ مذاکرات کسی بھی طرح طالبان کو تسلیم کرنے کی پیشکش نہیں تھے جنہوں نے 15 اگست کو امریکی اتحادی حکومت کے خاتمے کے بعد اقتدار سنبھال لیا تھا۔
طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ تحریک کے عبوری وزیر خارجہ نے مذاکرات میں امریکہ کو یقین دہانی کروائی ہے کہ طالبان یہ دیکھنے کے لیے پرعزم ہیں کہ شدت پسند، افغان سرزمین دوسرے ممالک کے خلاف حملے شروع کرنے کے لیے استعمال نہ کریں۔تاہم ہفتہ کے روز طالبان نے افغانستان میں تیزی سے سرگرم عسکریت پسند ’داعش’پر قابو پانے کے لیے واشنگٹن کے ساتھ تعاون کو مسترد کردیا تھا۔
طالبان کی دشمن تنظیم، داعش نے افغانستان میں حالیہ حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جس میں جمعہ کا خودکش بم دھماکا بھی شامل ہے جس کے نتیجے میں 46 افراد مارے گئے۔
سہیل شاہین سے جب سوال کیا گیا کہ کیا طالبان، داعش سے وابستہ لوگوں پر قابو پانے کے لیے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کریں گے تو انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم داعش پر اکیلے ہی قابو پاسکتے ہیں‘۔